ETV Bharat / international

Pakistani Farmer on Floods تباہ کن سیلاب کے نقصانات سے پاکستان پچاس سال پیچھے جاچکا

پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے سینکڑوں لوگ لقمہ اجل ہوگئے ہیں۔ وہیں کسان حالیہ تباہ کن سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگا رہے ہیں۔ ایک کسان نے بتایا کہ ہم 50 سال پیچھے جا چکے ہیں، جن کی 2500 ایکٹر زمین پر کپاس اور گنے کی فصل کٹائی کی قریب تھی، اب مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔Pakistani Farmer On Pakistan Floods

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Sep 3, 2022, 8:28 PM IST

اسلام آباد: پاکستان میں آنے والے بھیانک اور تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ ڈوبا ہوا ہے اور اس کے سبب تقریباً دو ہزار جانیں جاچکی ہیں اور لاکھوں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ کسان حالیہ تباہ کن سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگا رہے ہیں، جس کے سبب ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، اس کے طویل المعیاد اثرات پہلے ہی واضح ہیں۔Pakistani Farmer On Pakistan Floods

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق سندھ کے ایک کسان اشرف علی بھنبرو نے بتایا کہ ہم 50 سال پیچھے جا چکے ہیں، جن کی 2500 ایکٹر زمین پر کپاس اور گنے کی فصل کٹائی کی قریب تھی، اب مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہیں، اور سندھ بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔

یہ صوبہ طاقتور دریائے سندھ کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم ہے، جس کے کناروں پر صدیوں سے کھیتی باڑی کی جا رہی ہے، اور آبپاشی کے نظام کا ریکارڈ 4 ہزار سال قبل مسیح سے ہے۔صوبہ ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے زیرآب ہے لیکن نکاسی آب کہیں نہیں ہورہی کیونکہ دریائے سندھ کی سطح پہلے ہی فل ہے۔اشرف علی بھنبرو کا کہنا تھا کہ ایک موقع پر بارش مسلسل 72 گھنٹے ہوتی رہی، اور ان کا صرف خام مال کا کم از کم 27 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میں کھاد اور پیسٹیسائیڈز کی لاگت شامل ہے، ہم نے اپنا نفع شامل نہیں کیا، جو اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا تھا کیونکہ بمپر کروپ تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب تک کھیتوں سے پانی کی نکاسی نہیں ہوتی، اشرف علی بھنبرو جیسے کسان سردیوں کی فصل گندم کی بوائی نہیں کرسکیں گے جو کہ ملک میں تحفطِ خوراک کے لیے کلیدی ہے۔سکھر سے 40 کلومیٹر دور شمال مشرق میں سموں خان گاؤں میں اپنی زمین پر انہوں نے کہا ہمارے پاس ایک مہینہ ہے، اگر اس عرصے میں پانی ختم نہیں ہوا تو گندم کی پیداوار نہیں ہوسکے گی۔پاکستان کئی برسوں میں گندم کی پیدوار میں خودکفیل ہے لیکن حال ہی میں درآمد پر انحصار کیا ہے تاکہ ملک میں محفوظ ذخائر کو یقینی بنایا جاسکے۔ روس سے کم قیمت پر گندم خریدنے کے باوجود اسلام آباد بمشکل گندم درآمد کرسکتا ہے۔

ملک غیرملکی قرض دہندگان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے، گزشتہ ہفتے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام بحال ہوا ہے، جس سے وہ غیر ملکی قرض کی قسط بھی ادا نہیں کرسکتا، اندازے کے مطابق سیلاب سے ہونے والے تقریبا 10 ارب ڈالر کے نقصانات کی تو بات ہی نہ کریں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سکھر سے سموں خان جاتے ہوئے ہائی وے پر سیلاب کی تباہی کے چونکا دینے والے مناظر تھے۔

کچھ جگہوں پر اتنی دور تک پانی تھا جہاں تک نظر دیکھ سکتی تھی، جہاں پر کپاس کی فصل سیلاب میں نظر آرہی تھی، ان کے پتے براؤن ہو گئے ہیں، جس میں شاید ہی کوئی بیل نظر آئے۔سکھر سے 30 کلو میٹر دور شمال مشرق میں ایک کسان لطیف ڈینونے بتایا کہ کپاس کو بھول جائیں۔

بڑے زمیندار ممکنہ طور پر سیلاب سے باہر نکلیں گے لیکن لاکھوں چھوٹے کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔زیادہ تر کسان صوبے بھر کے مختلف دیہاتوں میں اپنی چھوٹی چھوٹی زمینوں پر خوراک لگا کر کمائی کر سکیں گے لیکن وہ بھی زیر آب ہیں، اور لاکھوں کسان سیلاب میں گھرے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر رہنے کی جگہ تلاش کررہے ہیں۔ہر سیزین میں میں اپنے 6 فیملی ممبران کے ہمراہ مزدوری کرنے والے سعید بلوچ نے بتایا کہ کچھ بھی نہیں بچا۔

صرف کسان ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ سپلائی چین سے جڑے تمام لوگ اس کے منفی اثرات محسوس کررہے ہیں۔صالح پٹ میں کپاس کے تاجر وسیم احمد نے بتایا کہ ہم برباد ہو گئے، وہ دیگر لوگوں کی طرح مہنگائی اور منڈی میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے خریداری کے لیے ایڈوانس میں رقم ادا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 200 من (تقریبا 8 ہزار کلو) کی توقع کے خلاف صرف 35 من حاصل کی جاسکی۔

سندھ میں کپاس کی منڈی میں ایک چھوٹے اسٹور میں دو لڑکے بھیگی ہوئی کپاس کو چیک کررہے تھے کہ شاید کچھ بچائی جاسکے۔تاجر احمد نے بند دکانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ منڈی اور حتیٰ کہ جننگ فیکٹریز بند ہوچکی ہیں۔بے بسی کا احساس بہت زیادہ ہے، لیکن کپاس چننے والا ڈینو اللہ سے امید رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کی طرف دیکھتے ہیں، وہ ہی بچانے کا والا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Pakistan Floods پاکستان میں سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد بارہ سو سے تجاوز، صحت کے بحران کا خطرہ

یو این آئی

اسلام آباد: پاکستان میں آنے والے بھیانک اور تباہ کن سیلاب کے نتیجے میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ ڈوبا ہوا ہے اور اس کے سبب تقریباً دو ہزار جانیں جاچکی ہیں اور لاکھوں ہزاروں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ کسان حالیہ تباہ کن سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگا رہے ہیں، جس کے سبب ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب ہے، اس کے طویل المعیاد اثرات پہلے ہی واضح ہیں۔Pakistani Farmer On Pakistan Floods

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق سندھ کے ایک کسان اشرف علی بھنبرو نے بتایا کہ ہم 50 سال پیچھے جا چکے ہیں، جن کی 2500 ایکٹر زمین پر کپاس اور گنے کی فصل کٹائی کی قریب تھی، اب مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے۔مون سون بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہیں، اور سندھ بری طرح متاثر ہونے والے علاقوں میں شامل ہے۔

یہ صوبہ طاقتور دریائے سندھ کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم ہے، جس کے کناروں پر صدیوں سے کھیتی باڑی کی جا رہی ہے، اور آبپاشی کے نظام کا ریکارڈ 4 ہزار سال قبل مسیح سے ہے۔صوبہ ریکارڈ بارشوں کی وجہ سے زیرآب ہے لیکن نکاسی آب کہیں نہیں ہورہی کیونکہ دریائے سندھ کی سطح پہلے ہی فل ہے۔اشرف علی بھنبرو کا کہنا تھا کہ ایک موقع پر بارش مسلسل 72 گھنٹے ہوتی رہی، اور ان کا صرف خام مال کا کم از کم 27 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس میں کھاد اور پیسٹیسائیڈز کی لاگت شامل ہے، ہم نے اپنا نفع شامل نہیں کیا، جو اس سے کہیں زیادہ ہو سکتا تھا کیونکہ بمپر کروپ تھی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب تک کھیتوں سے پانی کی نکاسی نہیں ہوتی، اشرف علی بھنبرو جیسے کسان سردیوں کی فصل گندم کی بوائی نہیں کرسکیں گے جو کہ ملک میں تحفطِ خوراک کے لیے کلیدی ہے۔سکھر سے 40 کلومیٹر دور شمال مشرق میں سموں خان گاؤں میں اپنی زمین پر انہوں نے کہا ہمارے پاس ایک مہینہ ہے، اگر اس عرصے میں پانی ختم نہیں ہوا تو گندم کی پیداوار نہیں ہوسکے گی۔پاکستان کئی برسوں میں گندم کی پیدوار میں خودکفیل ہے لیکن حال ہی میں درآمد پر انحصار کیا ہے تاکہ ملک میں محفوظ ذخائر کو یقینی بنایا جاسکے۔ روس سے کم قیمت پر گندم خریدنے کے باوجود اسلام آباد بمشکل گندم درآمد کرسکتا ہے۔

ملک غیرملکی قرض دہندگان کا اربوں ڈالر کا مقروض ہے، گزشتہ ہفتے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرض پروگرام بحال ہوا ہے، جس سے وہ غیر ملکی قرض کی قسط بھی ادا نہیں کرسکتا، اندازے کے مطابق سیلاب سے ہونے والے تقریبا 10 ارب ڈالر کے نقصانات کی تو بات ہی نہ کریں۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ سکھر سے سموں خان جاتے ہوئے ہائی وے پر سیلاب کی تباہی کے چونکا دینے والے مناظر تھے۔

کچھ جگہوں پر اتنی دور تک پانی تھا جہاں تک نظر دیکھ سکتی تھی، جہاں پر کپاس کی فصل سیلاب میں نظر آرہی تھی، ان کے پتے براؤن ہو گئے ہیں، جس میں شاید ہی کوئی بیل نظر آئے۔سکھر سے 30 کلو میٹر دور شمال مشرق میں ایک کسان لطیف ڈینونے بتایا کہ کپاس کو بھول جائیں۔

بڑے زمیندار ممکنہ طور پر سیلاب سے باہر نکلیں گے لیکن لاکھوں چھوٹے کسانوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوگا۔زیادہ تر کسان صوبے بھر کے مختلف دیہاتوں میں اپنی چھوٹی چھوٹی زمینوں پر خوراک لگا کر کمائی کر سکیں گے لیکن وہ بھی زیر آب ہیں، اور لاکھوں کسان سیلاب میں گھرے گھروں کو چھوڑ کر محفوظ مقامات پر رہنے کی جگہ تلاش کررہے ہیں۔ہر سیزین میں میں اپنے 6 فیملی ممبران کے ہمراہ مزدوری کرنے والے سعید بلوچ نے بتایا کہ کچھ بھی نہیں بچا۔

صرف کسان ہی متاثر نہیں ہوئے بلکہ سپلائی چین سے جڑے تمام لوگ اس کے منفی اثرات محسوس کررہے ہیں۔صالح پٹ میں کپاس کے تاجر وسیم احمد نے بتایا کہ ہم برباد ہو گئے، وہ دیگر لوگوں کی طرح مہنگائی اور منڈی میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے خریداری کے لیے ایڈوانس میں رقم ادا کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 200 من (تقریبا 8 ہزار کلو) کی توقع کے خلاف صرف 35 من حاصل کی جاسکی۔

سندھ میں کپاس کی منڈی میں ایک چھوٹے اسٹور میں دو لڑکے بھیگی ہوئی کپاس کو چیک کررہے تھے کہ شاید کچھ بچائی جاسکے۔تاجر احمد نے بند دکانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ منڈی اور حتیٰ کہ جننگ فیکٹریز بند ہوچکی ہیں۔بے بسی کا احساس بہت زیادہ ہے، لیکن کپاس چننے والا ڈینو اللہ سے امید رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم اللہ کی طرف دیکھتے ہیں، وہ ہی بچانے کا والا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: Pakistan Floods پاکستان میں سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد بارہ سو سے تجاوز، صحت کے بحران کا خطرہ

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.