پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجواہ نے اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ Islamabad Security Dialogue سے خطاب کرتے ہوئے بھارت سے تمام تنازعات کے حل کے لیے بات چیت پر زور دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے جمعہ کو اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ کا افتتاح کیا۔ کانفرنس میں 'جامع سیکورٹی: بین الاقوامی تعاون کا از سر نو تصور' کے موضوع کے تحت بین الاقوامی سلامتی میں ابھرتے ہوئے چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ کانفرنس میں پاکستانی اور بین الاقوامی پالیسی ماہرین نے شرکت کی۔ باجوہ نے کہا کہ اسلام آباد کشمیر سمیت تمام زیر التوا مسائل کو حل کرنے کے لیے سفارت کاری کا راستہ اپنانے پر یقین رکھتا ہے اور اگر ہندوستان ایسا کرنے پر راضی ہوتا ہے تو وہ اس محاذ پر آگے بڑھنے کے لیے تیار ہے۔ جنرل باجواہ نے یہ بات دو روزہ 'اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ' کانفرنس کے آخری روز کہی۔
آرمی چیف نے کہا کہ چونکہ دنیا کا ایک تہائی حصہ بشمول خلیجی خطہ اور دیگر ممالک کسی نہ کسی شکل میں تنازعات اور جنگ کی لپیٹ میں ہیں اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی سرزمین سے آگ کے شعلوں کو دور رکھیں۔ اسلام آباد سیکورٹی ڈائیلاگ میں امریکہ، چین، برطانیہ، روس، یورپی یونین، جاپان، فلپائن اور دیگر ممالک کے 17 بین الاقوامی مقررین کی میزبانی کر رہا ہے۔ سی او اے ایس جنرل باجوہ نے کہا ’’مجھے یقین ہے کہ آج ہمیں پہلے سے کہیں زیادہ فکری بحث کے لیے ایسی جگہوں کو تیار کرنے اور فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے گزشتہ سال اسلام آباد سیکیورٹی مذاکرات میں اسی طرح کے بیان دیئے تھے جب انہوں نے کہا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھیں۔
اسلام آباد سیکیورٹی ڈائیلاگ میں جنرل باجواہ نے تنازعات کو خطے سے دور رکھنے کی اہمیت پر روشنی ڈالی، انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان چاہتا ہے کہ بھارت چین سرحد جلد از جلد سفارت کاری اور بات چیت کے ذریعے حل کی جائے۔انہوں نے کہا، "میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ خطے کی سیاسی قیادت اپنے جذباتی اور تصوراتی تعصبات سے اوپر اٹھے اور خطے کے تقریباً تین ارب لوگوں کے لیے امن اور خوشحالی لانے کے لیے تاریخ کے طوق کو توڑے۔"سی او اے ایس نے کہا، "پاکستان اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ خطے ترقی کرتے ہیں، ممالک نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے وسیع خطے میں امن اور استحکام مشترکہ علاقائی خوشحالی اور ترقی کے حصول کے لیے بنیادی شرط ہے۔ اس سلسلے میں، ہمارے دروازے تمام پڑوسیوں کے لیے کھلے ہیں۔ "
اپنی تقریر کے دوران جنرل باجوہ نے 9 مارچ کو پاکستان میں ہندوستان کے حادثاتی میزائل لانچ کو شدید تشویش کا معاملہ قرار دیا اور کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ ہندوستان پاکستان اور دنیا کو یقین دلانے کے لیے ثبوت فراہم کرے گا کہ ان کے ہتھیار محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "اسٹریٹجک ہتھیاروں کے نظام سے متعلق دیگر واقعات کے برعکس، یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ایک جوہری ہتھیاروں سے لیس ایک ملک کا سپرسونک کروز میزائل دوسرے میں گرا ہے۔"
پاکستان کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے لیکن دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات توڑنے کی قیمت ادا نہیں کرے گا۔ جنرل باجواہ نے اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ 2022 سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ بہترین اور اسٹریٹجک تعلقات کی ایک طویل تاریخ ہے اور یہ سب سے بڑی برآمدات کا بازار بنا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا ،'ہم باہمی تعلقات کو متاثر کیے بغیر دونوں ملکوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع اور فروغ دینا چاہتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: Imran Khan's Address to the Nation: اتوار کو پاکستان کا فیصلہ ہوگا، میں آخری گیند تک لڑوں گا
یوکرین کے مسئلے پر انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان نے ہمیشہ فوری جنگ بندی کی حمایت کی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان اپنے ملک میں دہشت گردوں کو پناہ نہ ملے، یہ یقینی بنانے کے لیے افغان عبوری حکومت اور دیگر ہمسایوں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ اور ہم دہشت گردی کے خلاف اپنے مفاد کو محفوظ کرنے کے لیے پابند عہد ہیں اور پر امن اور خوشحال مغرب اور جنوبی ایشیا بنانا ہمار ہدف ہے۔
آرمی چیف نے کہا کہ افغانستان کے عوام کے تئیں عالمی برادری کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ ملک میں بروقت اور مناسب انسانی امداد پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی پابندیاں لگانے کے بجائے جو کبھی کارگر نہیں ہوتیں، دنیا کو افغانوں کو اپنے طرز عمل میں مثبت تبدیلی لانے کی ترغیب دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا، 'بدقسمتی سے، مالیاتی بہاؤ کی کمی اور مسلسل پابندیاں افغانستان میں ایک انسانی بحران کو جنم دے رہی ہیں'۔ فوجی سربراہ نے کہا کہ پاکستان کا ماننا ہے کہ وسیع خطے میں امن اور استحکام مشترکہ علاقائی خوشحالی اور ترقی کے حصول کے لیے ضروری شرائط ہیں۔