ETV Bharat / international

New law Controversy in Pakistan پاکستان میں نیا تنازع، صدر کی دستخط کے بغیر ہی دو بِلز کیسے قانون بن گئے؟

author img

By

Published : Aug 21, 2023, 5:40 PM IST

Updated : Aug 21, 2023, 6:05 PM IST

پاکستان کے صدر عارف علوی نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس کے باوجود یہ بل قانونی شکل اختیار کرگیا ہے۔ صدر کے اس دعوے کے بعد پاکستان میں ایک نیا تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔ New law controversy in Pakistan

Etv Bharat
Etv Bharat

اسلام آباد: سیاسی بحران سے دوچار پاکستان اب آئینی بحران کا بھی شکار ہوگیا ہے۔ دراصل ملک میں دو بِلز آفیشل سیکرٹس (ترمیمی) بل اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2023 اتوار کو منظور کر لیے گئے اور صدر عارف علوی کے دستخط کے بعد قانون بھی بن گیا، لیکن صدر عارف علوی نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ انھوں نے ان دونوں بلوں پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔

پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایکس، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر لکھا کہ جیسا کہ خدا میرا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے اور میں نے ان سے کئی بار اس بتا کی تصدیق بھی کی کہ آیا وہ بلز واپس کردیے گئے ہیں تو مجھے یقین دلایا گیا کہ ہاں وہ ایسا کرچکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔ جیسا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ سب کو معاف کر دے گا، لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس قوانین سے متاثر ہوں گے۔

پاکستان کے صدر عارف علوی کا ٹویٹ
پاکستان کے صدر عارف علوی کا ٹویٹ

پاکستانی میڈیا کے مطابق قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ان دونوں بلوں کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا لیکن ٹریژری کے ارکان کی جانب سے بلوں پر تنقید کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بلوں کو قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔ بعد ازاں دونوں بلوں میں سے بعض متنازع شقوں کو نکال کر بلوں کو دوبارہ سینیٹ میں پیش کیا گیا اور پھر وہاں سے منظوری کے بعد انہیں صدر علوی کے دستخط کے لیے بھیج دیا گیا جس کے بارے میں صدر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان بلوں پر دستخط نہیں کیے تھے۔

نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے اتوار کو واضح کیا کہ یہ دونوں بل ایوان صدر سے موصول نہیں ہوئے، جس کے بعد یہ بل قانون بن گئے کیونکہ صدر کے گھر سے کوئی اعتراض موصول نہیں ہوا۔ دراصل آئین کے آرٹیکل 75 (1) کے مطابق، جب صدر کے پاس کوئی بل ان کی منظوری کے لیے پیش کیا جاتا ہے، تو اس کے پاس بل کی منظوری کے لیے 10 دن کا وقت ہوتا ہے اس دوران صدر یا تو بل کو وزارت قانون و انصاف کو اپنے اعتراضات کے ساتھ واپس کر دے بصورت دیگر اگر صدر 10 دن کے اندر نہیں بل پر اعتراضات نہیں بھیجتے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس بل کو منظور کر لیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل- این) نے صدر سے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پی پی پی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے واقعے کو بدقسمتی قرار دیا اور علوی کو صدر کے عہدے کے لیے نااہل شخص قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ ایسا شخص ایوان صدر میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ شخص نہیں جانتا کہ ان کے اطراف میں کیا ہو رہا ہے۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے کس نے نظرانداز کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

آفیشل سیکرٹس اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل پر صدر عارف علوی کے دستخط سے متعلق تنازعہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ پی ٹی آئی نے یہ بھی کہا کہ اس نئے تنازع نے ریاست اور حکومت کے اندر گہرے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سربراہ مملکت وفاق کی علامت، پارلیمنٹ کا حصہ اور پاک فوج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے۔ صدر کے احکامات پر عمل درآمد غیر آئینی اور ناقابل قبول ہے۔

آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 کے مطابق، اگر کوئی شخص جان بوجھ کر امن عامہ میں کوئی مسئلہ پیدا کرتا ہے یا ریاست کے خلاف کام کرتا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا ہے یا اسے نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد بالواسطہ یا بلاواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے تو یہ بھی قابل سزا جرم ہے۔مذکورہ ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا اور 30 ​​دن میں سماعت مکمل کرکے فیصلہ کیا جائے گا۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 میں فوجی اہلکاروں کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دفعات موجود ہیں۔اس قانون کے مطابق کوئی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفیٰ یا برطرفی کے بعد دو سال تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے گا، جب کہ حساس نوعیت کی ڈیوٹی سے متعلق فرائض انجام دینے والے فوجی اہلکار یا افسران سروس کے خاتمے کے بعد پانچ سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے ریٹائرڈ فوجی افسر کو دو سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اگر کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی اہلکار ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا پر فوج کی تضحیک کرتا ہے، تو اسے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت سزا دی جائے گی۔ مذکورہ قانون کے مطابق کوئی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر جو فوج کی بدنامی کا باعث بنے گا یا اس کے خلاف نفرت پھیلاے گا اسے آرمی ایکٹ کے تحت دو سال قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

اسلام آباد: سیاسی بحران سے دوچار پاکستان اب آئینی بحران کا بھی شکار ہوگیا ہے۔ دراصل ملک میں دو بِلز آفیشل سیکرٹس (ترمیمی) بل اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2023 اتوار کو منظور کر لیے گئے اور صدر عارف علوی کے دستخط کے بعد قانون بھی بن گیا، لیکن صدر عارف علوی نے سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر لکھا کہ انھوں نے ان دونوں بلوں پر دستخط نہیں کیے کیونکہ وہ ان قوانین سے متفق نہیں تھے۔

پاکستان کے صدر عارف علوی نے ایکس، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے جانا جاتا تھا، پر لکھا کہ جیسا کہ خدا میرا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں تھا۔ میں نے اپنے عملے سے کہا کہ وہ بغیر دستخط شدہ بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس کر دیں تاکہ انہیں غیر موثر بنایا جا سکے اور میں نے ان سے کئی بار اس بتا کی تصدیق بھی کی کہ آیا وہ بلز واپس کردیے گئے ہیں تو مجھے یقین دلایا گیا کہ ہاں وہ ایسا کرچکے ہیں۔ تاہم مجھے آج پتہ چلا کہ میرے عملے نے میری مرضی اور حکم کو مجروح کیا۔ جیسا کہ اللہ سب جانتا ہے، وہ سب کو معاف کر دے گا، لیکن میں ان لوگوں سے معافی مانگتا ہوں جو اس قوانین سے متاثر ہوں گے۔

پاکستان کے صدر عارف علوی کا ٹویٹ
پاکستان کے صدر عارف علوی کا ٹویٹ

پاکستانی میڈیا کے مطابق قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد ان دونوں بلوں کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تھا لیکن ٹریژری کے ارکان کی جانب سے بلوں پر تنقید کے بعد چیئرمین سینیٹ نے بلوں کو قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔ بعد ازاں دونوں بلوں میں سے بعض متنازع شقوں کو نکال کر بلوں کو دوبارہ سینیٹ میں پیش کیا گیا اور پھر وہاں سے منظوری کے بعد انہیں صدر علوی کے دستخط کے لیے بھیج دیا گیا جس کے بارے میں صدر نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان بلوں پر دستخط نہیں کیے تھے۔

نگراں وزیر قانون احمد عرفان اسلم نے اتوار کو واضح کیا کہ یہ دونوں بل ایوان صدر سے موصول نہیں ہوئے، جس کے بعد یہ بل قانون بن گئے کیونکہ صدر کے گھر سے کوئی اعتراض موصول نہیں ہوا۔ دراصل آئین کے آرٹیکل 75 (1) کے مطابق، جب صدر کے پاس کوئی بل ان کی منظوری کے لیے پیش کیا جاتا ہے، تو اس کے پاس بل کی منظوری کے لیے 10 دن کا وقت ہوتا ہے اس دوران صدر یا تو بل کو وزارت قانون و انصاف کو اپنے اعتراضات کے ساتھ واپس کر دے بصورت دیگر اگر صدر 10 دن کے اندر نہیں بل پر اعتراضات نہیں بھیجتے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس بل کو منظور کر لیا گیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل- این) نے صدر سے استعفے کا مطالبہ کردیا ہے۔ پی پی پی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے واقعے کو بدقسمتی قرار دیا اور علوی کو صدر کے عہدے کے لیے نااہل شخص قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ پی پی پی رہنما نے کہا کہ میرا ماننا ہے کہ ایسا شخص ایوان صدر میں رہنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ شخص نہیں جانتا کہ ان کے اطراف میں کیا ہو رہا ہے۔ اسے یہ بھی نہیں معلوم کہ اسے کس نے نظرانداز کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

آفیشل سیکرٹس اور آرمی ایکٹ میں ترامیم کے بل پر صدر عارف علوی کے دستخط سے متعلق تنازعہ کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے بلوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔ پی ٹی آئی نے یہ بھی کہا کہ اس نئے تنازع نے ریاست اور حکومت کے اندر گہرے مسائل کی نشاندہی کرتی ہے، انہوں نے مزید کہا کہ سربراہ مملکت وفاق کی علامت، پارلیمنٹ کا حصہ اور پاک فوج کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے۔ صدر کے احکامات پر عمل درآمد غیر آئینی اور ناقابل قبول ہے۔

آفیشل سیکرٹس ترمیمی بل 2023 کے مطابق، اگر کوئی شخص جان بوجھ کر امن عامہ میں کوئی مسئلہ پیدا کرتا ہے یا ریاست کے خلاف کام کرتا ہے تو وہ جرم کا مرتکب ہوگا۔ اس کے علاوہ اگر کوئی شخص کسی ممنوعہ جگہ پر حملہ کرتا ہے یا اسے نقصان پہنچاتا ہے جس کا مقصد بالواسطہ یا بلاواسطہ دشمن کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے تو یہ بھی قابل سزا جرم ہے۔مذکورہ ترمیمی بل کے تحت ملزمان کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا اور 30 ​​دن میں سماعت مکمل کرکے فیصلہ کیا جائے گا۔

آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 میں فوجی اہلکاروں کی ریٹائرمنٹ سے متعلق دفعات موجود ہیں۔اس قانون کے مطابق کوئی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ، استعفیٰ یا برطرفی کے بعد دو سال تک کسی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے گا، جب کہ حساس نوعیت کی ڈیوٹی سے متعلق فرائض انجام دینے والے فوجی اہلکار یا افسران سروس کے خاتمے کے بعد پانچ سال تک سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔ آرمی ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب پائے جانے والے ریٹائرڈ فوجی افسر کو دو سال تک قید کی سزا دی جائے گی۔ اس کے علاوہ، اگر کوئی حاضر سروس یا ریٹائرڈ فوجی اہلکار ڈیجیٹل یا سوشل میڈیا پر فوج کی تضحیک کرتا ہے، تو اسے الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت سزا دی جائے گی۔ مذکورہ قانون کے مطابق کوئی بھی حاضر سروس یا ریٹائرڈ افسر جو فوج کی بدنامی کا باعث بنے گا یا اس کے خلاف نفرت پھیلاے گا اسے آرمی ایکٹ کے تحت دو سال قید اور جرمانے کی سزا دی جائے گی۔

Last Updated : Aug 21, 2023, 6:05 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.