تہران: ایران میں 16 ستمبر کو 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی پولیس حراست میں موت کے بعد ہونے والے حالیہ پرتشدد مظاہروں میں اب تک 300 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ پاسداران انقلاب کے ایک جنرل امیر علی حاجی زادہ نے منگل کو یہ اطلاع دی۔Anti Hijab Protests in Iran
اس خاتون کی موت سے ملک میں ہر کوئی متاثر ہوا ہے۔ میرے پاس تازہ ترین اعداد و شمار نہیں ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں اس واقعے کے بعد تقریباً 300 لوگ شہید ہوئے جن میں بچے بھی شامل تھے۔ ایرو اسپیس ڈویژن کے ہیڈ آف گارڈ بریگیڈیئر جنرل امیر علی حاجی زادہ نے مہر نیوز ایجنسی کو ایک ویڈیو جاری کرتے ہوئے یہ بات کہی۔
یہ بھی پڑھیں: Iran Supreme Leader niece arrested حکومت کی تنقید کرنے پر ایران کے سپریم لیڈر کی بھانجی گرفتار
اس اعداد و شمار میں درجنوں پولیس اہلکار، فوجی اور مسلح گروپوں کے ارکان بھی شامل ہیں جو مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں مارے گئے۔ یہ تازہ ترین سرکاری اعداد و شمار ایران کے اوسلو میں قائم انسانی حقوق کے گروپ کی طرف سے دیے گئے اعداد و شمار کے قریب ہے، جس میں ہلاکتوں کی تعداد کم از کم 416 بتائی گئی ہے۔ گروپ نے کہا کہ مرنے والوں میں مہسا امینی کے خلاف مظاہروں کے علاوہ جنوب مشرقی سیستان-بلوچستان کے ضلع میں ہونے والے مظاہروں میں ہلاک ہونے والے افراد بھی شامل ہیں۔