طرابلس: لیبیا کے شمالی ساحلی شہر درنا کے گلی کوچے لاشوں سے بھر گئے ہیں، ہر طرف بچوں، بڑوں اور خواتین کی لاشیں نظر آ رہی ہیں، مردہ خانے بھی بھرے پڑے ہیں، مقامی حکام نے افسوس ناک خبر دی ہے کہ سیلاب میں مرنے والوں کی تعداد بدھ کی صبح 6 ہزار سے بڑھ گئی ہے۔ الجزیرہ کے مطابق درنا کے میئر عبدالمنعم الغیثی نے العربیہ ٹیلی ویژن کو بتایا کہ سیلاب سے تباہ ہونے والے اضلاع کی تعداد کی بنیاد پر شہر میں ہلاکتوں کی تعداد 18,000 سے 20,000 کے درمیان ہو سکتی ہے۔
درنا کے میئر نے وبا پھوٹ پڑنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے بین الاقوامی امدادی اداروں سے لاشوں کی تدفین کے لیے بیگ فراہم کرنے کی اپیل بھی کر دی ہے، ترکیہ، جرمنی اور دیگر ممالک کی جانب سے متاثرین کے لیے امداد بھی پہنچا دی گئی۔ سی این این کے مطابق طرابلس میں یونٹی گورنمنٹ کی وزارت صحت کے انڈر سیکریٹری سعدالدین عبدالوکیل نے بتایا کہ بدھ کی صبح مرنے والوں کی تعداد 6,000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ لگ بھگ 10,000 افراد لاپتا ہیں، جو ممکنہ طور پر یا تو سمندر میں بہہ گئے ہیں یا گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کے کنٹری ڈائریکٹر علی ابو عون کا کہنا تھا کہ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، ناکام مواصلاتی نیٹ ورک، برسوں کی خانہ جنگی کی تباہ کاریوں اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نے لیبیا کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں سے ایک بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو بنیادی سامان کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ واضح رہے کہ بحیرہ روم کا طوفان ڈینئل اتوار کو مشرقی لیبیا کے کئی قصبوں میں مہلک سیلاب کا باعث بنا، لیکن سب سے زیادہ متاثر شہر درنا تھا، جس کے اوپر پہاڑوں میں دو ڈیم ٹوٹ گئے، جس کا پانی سیلابی پانی کے ساتھ مل کر نیچے واقع وادئ درنا کے ایک چوتھائی حصے کو بہا کر لے گیا۔ (یو این آئی)