تاشقند: بھارت نے کووڈ وبائی بیماری اور یوکرین جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے عالمی توانائی اور خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لیے ایک پائیدار اور متنوع سپلائی چین، کثیر الجہتی نظام میں اصلاحات اور دہشت گردی کے تئیں زیرو ٹالرنس پالیسی پر زور دیا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر Dr. S. Jaishankar نے یہ بات ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں کہی۔ Jaishankar in SCO Meeting at Tashkent اس اجلاس میں بھارت کے علاوہ چین، قزاقستان، کرغزستان، پاکستان، روس، تاجکستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد ڈاکٹر جے شنکر نے کہا کہ میٹنگ میں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا کو کووڈ وبا اور یوکرین جنگ کی وجہ سے توانائی اور خوراک کے بحران کا سامنا ہے اور اسے فوری اور ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے ایک پائیدار اور متنوع سپلائی چین اور ایک تبدیل شدہ کثیر الجہتی نظام کا قیام اور کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے خلاف زیرو ٹالرنس بہت ضروری ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ میٹنگ میں انہوں نے افغانستان پر بھارت کے موقف کا اعادہ کیا اور گندم، ادویات، ویکسین، کپڑوں وغیرہ کی انسانی امداد پر زور دیا۔ انہوں نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اقتصادی مستقبل کے لیے چابہار بندرگاہ کی صلاحیت کے بارے میں بھی بات کی۔ ڈاکٹر جے شنکر نے بھارت کی اقتصادی ترقی پر تبادلہ خیال کیا اور اسٹارٹ اپس اور اختراعات کی مطابقت پر بھی زور دیا۔ روایتی ادویات میں باہمی تعاون شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے لیے یکساں دلچسپی کا حامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Bilawal and Jaishankar Under one Roof: ازبکستان میں جے شنکر اور بلاول بھٹو ایک ہی میز پر نظر آئے
وزیر خارجہ نے ایس سی او کی میٹنگ کو نتیجہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سمرقند میں 15 اور 16 ستمبر کو مجوزہ ایس سی او سربراہی اجلاس کی تیاریوں کے نقطہ نظر سے اسے مزید مفید قرار دیا۔ بعد ازاں جے شنکر نے قزاقستان، کرغزستان، ازبکستان اور تاجکستان کے وزرائے خارجہ اور ایس سی او کے سیکرٹری جنرل کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتیں بھی کیں۔
انھوں ایک ٹویٹ میں کہا کہ ایک نتیجہ خیز ایس سی او کی میٹنگ کے بعد تاشقند سے روانگی۔ انھوں آگے لکھا کہ ازبک، تاجک، کرغیز اور قازق ہم منصبوں کے ساتھ دو طرفہ ملاقاتوں نے بھارت-وسطی ایشیا سربراہی اجلاس کے عمل کو مزید آگے بڑھایا اس کے علاوہ روس کے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف کے ساتھ موقع پر ہونے والی بات چیت بھی کافی مفید رہی۔