ETV Bharat / bharat

ماہِ شعبان کی اہمیت و فضیلت: شعبان استقبالِ رمضان کا مہینہ - SHABAN AND SHAB E BARAT IMPORTANCE

احادیث میں ماہ شعبان اور شب برات کی کافی اہمیت وفضیلت وارد ہوئی ہے۔ شعبان کے روزے اور شب برات کی عبادتیں قابل ذکر ہیں۔

ماہ شعبان اور شب براءت کی اہمیت و فضیلت
ماہ شعبان اور شب براءت کی اہمیت و فضیلت (ETV Bharat)
author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Feb 13, 2025, 9:13 AM IST

حیدرآباد (نیوز ڈیسک): آج اسلامی کیلنڈر کے آٹھویں مہینے شعبان کی پندرہ تاریخ ہے۔ اسلامی روایات اور احادیث میں اس مہینے کے روزوں، خاص طور پر 15ویں شعبان کے روزے اور شب برات کی کافی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس موقعے پر ماہ شعبان اور شب براءت کی اہمیت و فضیلت اور عظمت کو احادیث کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

شعبان کا وجہ تسمیہ

شعبان اسلامی کلینڈر کا آٹھواں مہینہ ہے۔ اس کا نام 'شعبان' عربی لفظ 'شعب' سے ماخوذ ہے۔ عربی میں شعب کے معنیٰ لوگوں کا بڑا گروہ، بڑی جماعت، عوام، شاخوں کے ہوتے ہیں۔ جب کہ فعل میں اس کے معانی منتشر ہونا، پھیلنا، شاخ درشاخ ہونا، ظاہر ہونا ہوتا ہے۔ چوں کہ اس مہینے میں نیکیوں اور بھلائیوں کا پھیلاؤ ہوتا ہے اور اس میں رمضان سے قبل خیر و برکت کا ظہور شروع ہوتا ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ”شعبان“ رکھا گیا۔

شعبان استقبالِ رمضان اور روزوں کی تیاری کا مہینہ

مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شعبان مقدس ترین اسلامی مہینے رمضان کے استقبال کا مہینہ ہے۔ یہ رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے۔ اللہ رب العزت کی رحمتیں اور برکتیں رمضان سے قبل اسی مہینے میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر ماہ مقدس رمضان میں یہ پورے آب و تاب کے ساتھ سایہ فگن ہوجاتی ہیں۔

ماہ شعبان احادیث کی روشنی میں

رمضان چونکہ روزوں کا مہینہ ہے اس لیے اس کے اسقتبال کی تیاری میں نبی کریم ﷺ شعبان کے اکثر ایام میں روزے رکھتے تھے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: مَا رَأَیْتُ رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَھْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ (صحیح بخاری ۱/۲۶۴، صحیح مسلم ۱/۳۶۵)

ترجمہ: میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے علاوہ مہینے میں سبھی دن کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں (یعنی آپ ﷺ شعبان میں سب سے زیادہ نفلی روزے رکھتے تھے)۔

ایک اور حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کَانَ اَحَبُّ الشُّھُورِ اِلٰی رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ بِرَمَضَانَ (کنزالعمال حدیث ۲۴۵۸۴)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے جڑ جاتے تھے۔

حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ”اَیُّ الصَّوْمِ افضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ قالَ شعبانُ لِتَعْظِیْمِ رمضَانَ“ ترجمہ: رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: ''رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ۔۔۔الخ'' (ترمذی شریف ۱/۱۴۴، باب فضل الصدقہ)

اعمال کا اٹھایا جانا اور نام ملک الموت کے حوالے کیا جانا

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں، حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (شعب الایمان حدیث ۳۸۲۰، فتح الباری ۴/۲۵۳)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی؛ لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔ (مسند ابو یعلی حدیث ۴۹۱۱، فتح الباری ۴/۲۵۳

ایک اور حدیث میں عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یَصُوْمُ ثَلاثَةَ ایامٍ من کُلِّ شَھْرٍ فَرُبَّمَا اَخَّرَ ذٰلِکَ حَتّٰی یَجْتَمِعَ عَلَیْہِ صَومُ السَّنَةِ فَیَصُوْمُ شعبانَ“ (روضة المحدثین ۲/۳۴۹، نیل الاوطار ۴/۳۳۱)۔ یعنی ریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً ہر مہینے تین دن روزے رکھتے تھے لیکن جب کسی سے یہ روزے چھوٹ جاتے اور کئی مہینوں کے جمع ہوجاتے تو وہ ماہِ شعبان میں ان کی قضا فرماتے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلاَ تَصُوْمُوْا (ترمذی شریف ۱/۱۵۵، جامع الاحادیث ۲/۴۴۵) ترجمہ: 'جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو۔'

اس حدیث میں ایسے لوگوں کے لیے شعبان کے آخری پندرہ دن میں روزہ رکھنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے جنہیں روزہ کمزور کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ شعبان کے آخری حصے میں کھائیں پئیں اور طاقت حاصل کریں تاکہ رمضان المبارک کے روزے پوری طاقت اور جوش و جذبے کے ساتھ پورے کریں۔

شب برات احادیث کی روشنی میں

اسلامی روایات میں شعبان کی پندرہویں رات کو ”شبِ برأت“ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ براء ت کے لفظی معنی ”نجات وچھٹکارا“ کے ہوتے ہیں۔ احادیث میں شبِ براءت کی بہت فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ کچھ علماء اور ماہرین ان احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ آئیے چند احادیث پر نظر ڈالتے ہیں۔

شعبان کی فضیلت میں حضرت عائشہؓ سے مروی مشہور حدیث

عَنْ عَائِشَةَ قالت فَقَدتُّ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَةً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ھُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللہُ عَلَیْکِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ! ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللہَ تَبَارَکَ وتَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ․ (ترمذی شریف ۱/۱۵۶، ابن ماجہ ،ص۹۹)

ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات نبیﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں نکل پڑی، میں نے انہیں بقیع (مدینہ کے قبرستان) میں پایا۔ آپﷺ نے کہا کہ کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ تیرے ساتھ ناانصافی کرے گا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (مرقاة شرح مشکوٰة ۳/۳۳۹)

شعبان سے متعلق حضرت علیؓ سے مروی حدیث

عَنْ عَلِیِّ بنِ اَبِیْ طالبٍ قال قال رسولُ اللہِ صلی اللہُ علیہ وسلم اِذَا کانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوا لَیْلَھَا وصُوْمُوْا نَھَارَھَا فَاِنَّ اللہَ یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فیَقُولُ اَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہ اَلاَ مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ اَلاَ مُبْتَلاً فَاُعَافِیْہِ کَذَا اَلاَ کَذَا حتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ․ (ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان ۳/۳۷۸، حدیث ۳۸۲۲)

ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب نصف شعبان کی رات آئے تو تم اس رات قیام کیا کرو اور اس کے دن کو روزہ رکھو، اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر اترتے ہیں اور پکارتے ہیں کہ کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا ہے جس کی میں مغفرت کروں؟ کیا کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا ہے جسے میں رزق عطا کروں؟ کیا کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا شخص ہے جسے میں عافیت عطا کروں؟ وغیرہ وغیرہ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز لگاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔

شعبان پر حضرت ابو موسی اشعری کی روایت کردہ حدیث

عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ․ (سنن ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان للبیہقی ۳/۳۸۲)

ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔

شعبان سے متعلق عبداللہ ابن عمر سے مروی حدیث

عَنْ ابنِ عُمَر قال: خَمْسُ لَیَالٍ لاَ یُرَدُّ فِیْھِنَّ الدُّعَاءُ لَیلَةُ الجُمُعَة واَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبَ وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعبانَ ولَیْلَتَا الْعِیْدِ․ (شعیب الایمان ۳/۳۴۲، حدیث ۳۷۱۳)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی، جمعہ کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، عیدین کی راتیں۔

یہ بھی پڑھیں: شب برات کی عظمت، فضیلت و اہمیت احادیث کی روشنی میں

حیدرآباد (نیوز ڈیسک): آج اسلامی کیلنڈر کے آٹھویں مہینے شعبان کی پندرہ تاریخ ہے۔ اسلامی روایات اور احادیث میں اس مہینے کے روزوں، خاص طور پر 15ویں شعبان کے روزے اور شب برات کی کافی اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اس موقعے پر ماہ شعبان اور شب براءت کی اہمیت و فضیلت اور عظمت کو احادیث کی روشنی میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

شعبان کا وجہ تسمیہ

شعبان اسلامی کلینڈر کا آٹھواں مہینہ ہے۔ اس کا نام 'شعبان' عربی لفظ 'شعب' سے ماخوذ ہے۔ عربی میں شعب کے معنیٰ لوگوں کا بڑا گروہ، بڑی جماعت، عوام، شاخوں کے ہوتے ہیں۔ جب کہ فعل میں اس کے معانی منتشر ہونا، پھیلنا، شاخ درشاخ ہونا، ظاہر ہونا ہوتا ہے۔ چوں کہ اس مہینے میں نیکیوں اور بھلائیوں کا پھیلاؤ ہوتا ہے اور اس میں رمضان سے قبل خیر و برکت کا ظہور شروع ہوتا ہے اسی وجہ سے اس مہینے کا نام ”شعبان“ رکھا گیا۔

شعبان استقبالِ رمضان اور روزوں کی تیاری کا مہینہ

مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شعبان مقدس ترین اسلامی مہینے رمضان کے استقبال کا مہینہ ہے۔ یہ رمضان کی تیاری کا مہینہ ہے۔ اللہ رب العزت کی رحمتیں اور برکتیں رمضان سے قبل اسی مہینے میں ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں اور پھر ماہ مقدس رمضان میں یہ پورے آب و تاب کے ساتھ سایہ فگن ہوجاتی ہیں۔

ماہ شعبان احادیث کی روشنی میں

رمضان چونکہ روزوں کا مہینہ ہے اس لیے اس کے اسقتبال کی تیاری میں نبی کریم ﷺ شعبان کے اکثر ایام میں روزے رکھتے تھے۔

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں: مَا رَأَیْتُ رسولَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَھْرٍ قَطُّ الَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہ فِيْ شَھْرٍ اَکْثَرَ مِنْہُ صِیَامًا فِيْ شَعْبَانَ (صحیح بخاری ۱/۲۶۴، صحیح مسلم ۱/۳۶۵)

ترجمہ: میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے علاوہ مہینے میں سبھی دن کے روزے رکھے ہوں اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں (یعنی آپ ﷺ شعبان میں سب سے زیادہ نفلی روزے رکھتے تھے)۔

ایک اور حدیث میں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کَانَ اَحَبُّ الشُّھُورِ اِلٰی رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أن یَّصومَہ شَعْبَان ثُمَّ یَصِلُہ بِرَمَضَانَ (کنزالعمال حدیث ۲۴۵۸۴)

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام مہینوں سے زیادہ یہ بات پسند تھی کہ شعبان کے روزے رکھتے رکھتے رمضان سے جڑ جاتے تھے۔

حضرت انس فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ”اَیُّ الصَّوْمِ افضَلُ بَعْدَ رَمَضَانَ قالَ شعبانُ لِتَعْظِیْمِ رمضَانَ“ ترجمہ: رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ ارشاد فرمایا: ''رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ۔۔۔الخ'' (ترمذی شریف ۱/۱۴۴، باب فضل الصدقہ)

اعمال کا اٹھایا جانا اور نام ملک الموت کے حوالے کیا جانا

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں، حالاں کہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگارِ عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل بارگاہِ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ (شعب الایمان حدیث ۳۸۲۰، فتح الباری ۴/۲۵۳)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ماہِ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا: اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی؛ لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے دار ہوں۔ (مسند ابو یعلی حدیث ۴۹۱۱، فتح الباری ۴/۲۵۳

ایک اور حدیث میں عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ: ”کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یَصُوْمُ ثَلاثَةَ ایامٍ من کُلِّ شَھْرٍ فَرُبَّمَا اَخَّرَ ذٰلِکَ حَتّٰی یَجْتَمِعَ عَلَیْہِ صَومُ السَّنَةِ فَیَصُوْمُ شعبانَ“ (روضة المحدثین ۲/۳۴۹، نیل الاوطار ۴/۳۳۱)۔ یعنی ریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً ہر مہینے تین دن روزے رکھتے تھے لیکن جب کسی سے یہ روزے چھوٹ جاتے اور کئی مہینوں کے جمع ہوجاتے تو وہ ماہِ شعبان میں ان کی قضا فرماتے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلاَ تَصُوْمُوْا (ترمذی شریف ۱/۱۵۵، جامع الاحادیث ۲/۴۴۵) ترجمہ: 'جب آدھا شعبان باقی رہ جائے تو روزے مت رکھو۔'

اس حدیث میں ایسے لوگوں کے لیے شعبان کے آخری پندرہ دن میں روزہ رکھنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے جنہیں روزہ کمزور کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ شعبان کے آخری حصے میں کھائیں پئیں اور طاقت حاصل کریں تاکہ رمضان المبارک کے روزے پوری طاقت اور جوش و جذبے کے ساتھ پورے کریں۔

شب برات احادیث کی روشنی میں

اسلامی روایات میں شعبان کی پندرہویں رات کو ”شبِ برأت“ کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ براء ت کے لفظی معنی ”نجات وچھٹکارا“ کے ہوتے ہیں۔ احادیث میں شبِ براءت کی بہت فضیلت اور اہمیت بیان کی گئی ہے۔ حالانکہ کچھ علماء اور ماہرین ان احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔ آئیے چند احادیث پر نظر ڈالتے ہیں۔

شعبان کی فضیلت میں حضرت عائشہؓ سے مروی مشہور حدیث

عَنْ عَائِشَةَ قالت فَقَدتُّ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لَیْلَةً فَخَرَجْتُ فَاِذَا ھُوَ بِالبَقِیْعِ فَقَالَ أَکُنْتِ تَخَافِیْنَ اَنْ یَّحِیْفَ اللہُ عَلَیْکِ؟ قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اللہِ! ظَنَنْتُ اَنَّکَ اَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ فَقَالَ اِنَّ اللہَ تَبَارَکَ وتَعَالٰی یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِاَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ․ (ترمذی شریف ۱/۱۵۶، ابن ماجہ ،ص۹۹)

ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک رات نبیﷺ کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں نکل پڑی، میں نے انہیں بقیع (مدینہ کے قبرستان) میں پایا۔ آپﷺ نے کہا کہ کیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ تیرے ساتھ ناانصافی کرے گا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمانِ دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہٴ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (مرقاة شرح مشکوٰة ۳/۳۳۹)

شعبان سے متعلق حضرت علیؓ سے مروی حدیث

عَنْ عَلِیِّ بنِ اَبِیْ طالبٍ قال قال رسولُ اللہِ صلی اللہُ علیہ وسلم اِذَا کانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوا لَیْلَھَا وصُوْمُوْا نَھَارَھَا فَاِنَّ اللہَ یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا فیَقُولُ اَلاَ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِیْ فَاَغْفِرَ لَہ اَلاَ مِنْ مُسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقَہ اَلاَ مُبْتَلاً فَاُعَافِیْہِ کَذَا اَلاَ کَذَا حتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ․ (ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان ۳/۳۷۸، حدیث ۳۸۲۲)

ترجمہ: حضرت علی بن ابی طالبؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب نصف شعبان کی رات آئے تو تم اس رات قیام کیا کرو اور اس کے دن کو روزہ رکھو، اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر اترتے ہیں اور پکارتے ہیں کہ کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا ہے جس کی میں مغفرت کروں؟ کیا کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا ہے جسے میں رزق عطا کروں؟ کیا کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا شخص ہے جسے میں عافیت عطا کروں؟ وغیرہ وغیرہ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز لگاتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔

شعبان پر حضرت ابو موسی اشعری کی روایت کردہ حدیث

عَنْ اَبِیْ مُوسیٰ الاشْعَرِیِّ عَنْ رسولِ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم قال: اِنَّ اللہَ لَیَطَّلِعُ فی لَیْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَیَغْفِرُ لِجَمِیْعِ خَلْقِہ اِلاَّ لِمُشْرِکٍ او مُشَاحِنٍ․ (سنن ابن ماجہ ص۹۹، شعب الایمان للبیہقی ۳/۳۸۲)

ترجمہ: حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات میں متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی تمام مخلوق کی مغفرت فرمادیتے ہیں سوائے مشرک اور کینہ رکھنے والے کے۔

شعبان سے متعلق عبداللہ ابن عمر سے مروی حدیث

عَنْ ابنِ عُمَر قال: خَمْسُ لَیَالٍ لاَ یُرَدُّ فِیْھِنَّ الدُّعَاءُ لَیلَةُ الجُمُعَة واَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَجَبَ وَلَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعبانَ ولَیْلَتَا الْعِیْدِ․ (شعیب الایمان ۳/۳۴۲، حدیث ۳۷۱۳)

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ: پانچ راتوں میں دعا رد نہیں ہوتی، جمعہ کی رات، ماہِ رجب کی پہلی رات، نصف شعبان کی رات، عیدین کی راتیں۔

یہ بھی پڑھیں: شب برات کی عظمت، فضیلت و اہمیت احادیث کی روشنی میں

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.