خان یونس، غزہ: پیر کو فلسطینیوں نے دیر البلاح کے مرکزی قصبے میں ایک اسپتال کے مردہ خانے کے باہر 66 مہلوکین کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کی۔ وزارت صحت نے کہا کہ غزہ میں 10,022 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 4,100 بچے اور 2,600 خواتین شامل ہیں۔ وزارت نے کہا کہ 2,300 سے زیادہ لوگ لاپتہ ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ایک ہفتہ قبل زمینی کارروائی شروع ہونے کے بعد سے اب تک 30 اسرائیلی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ حماس اور دیگر عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر راکٹ فائر کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، جس سے روزمرہ کی زندگی درہم برہم ہو رہی ہے۔ دسیوں ہزار اسرائیلی غزہ اور لبنان کے ساتھ غیر مستحکم سرحدوں کے قریب کمیونٹیز سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
- زمینی لڑائی کے لیے تیار ہیں:اسرائیل
اسرائیلی فوج نے غزہ کے سب سے بڑے شہر میں حماس کے عسکریت پسندوں کے ساتھ متوقع زمینی لڑائی کی تیاری کرتے ہوئے پیر کے روز شمالی غزہ کو محصور علاقے کے باقی حصوں سے منقطع کر دیا اور اس پر فضائی حملہ شروع کر دیا۔ اسرائیل کے قیام کو 75 سال ہوچکے ہیں اور یہ جنگ تیزی سے سب سے مہلک اسرائیلی-فلسطینی تشدد بن گئی ہے، جس کا فی الحال کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کی حماس کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ضد مانی جارہی ہے۔ ہلاکتوں میں تیزی سے اضافہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، جلد ہی غزہ شہر میں فوجیوں کے داخل ہونے کی توقع ہے، اور فلسطینی عسکریت پسند جو اس جنگ میں ماہر سمجھے جاتے ہیں، ممکنہ طور پر سڑکوں پر لڑیں گے، سرنگوں کے وسیع نیٹ ورک سے گھات لگا کر حملہ کریں گے۔ اسرائیلی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ کرنل رچرڈ ہیچٹ نے کہا کہ "ہم ان پر قابو پا رہے ہیں۔" "ہم نے شمال میں حماس کے مضبوط گڑھ کو جنوب سے الگ کرتے ہوئے اپنا گھیراؤ مکمل کر لیا ہے۔
- شمالی غزہ میں بمباری:
شمالی غزہ میں اسرائیل زمینی حملے کی تیاری کر چکا ہے۔ لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ ابھی بھی شمال میں کئی لاکھ افراد ہیں جو جنوبی غزہ منتقل نہیں ہوئے۔ فوج کا کہنا ہے کہ غزہ شہر اور آس پاس کے علاقوں کے رہائشیوں کے لیے جنوب کی طرف بھاگنے کے لیے ایک طرفہ راہداری موجود ہے۔ لیکن بہت سے لوگ اس راستے کو استعمال کرنے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ اس راستے کا ایک حصہ اسرائیلی فوجیوں کے قبضے میں ہے۔ حالیہ دنوں میں، اسرائیل کے فضائی حملوں نے اقوام متحدہ کی تنصیبات اور ہزاروں زخمیوں سے بھرے پڑے اسپتالوں کو نشانہ بنایا ہے۔ غزہ کے تمام اسپتالوں کے جنرل مینیجر محمد زقوت نے کہا کہ پیر کی صبح ایک حملہ غزہ سٹی کے شفاہ اسپتال کی چھت پر کیا گیا، جس سے اس کی اوپری منزل پر پناہ لینے والے بے گھر افراد اور سولر پینل تباہ ہو گئے۔ انھوں نے کہا کہ سولر پینل بجلی کو جاری رکھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ حملہ اس وقت ہوا جب شمالی غزہ میں ایک رات میں سب سے زیادہ بمباری کی کی گئی۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے رات بھر 450 اہداف کو نشانہ بنایا، جس میں حماس کے متعدد فوجی کمانڈر مارے گئے۔ شفا اسپتال کے ایک سرجن غسان ابو ستّا نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ بمباری سے اسپتال کی عمارتیں رات بھر لرزتی رہیں اور ہم نے لاشیں اور زخمیوں کو نکالا۔ اُن کے مطابق یہ خوفناک تھا۔"
اسرائیلی فوج نے ایسی ویڈیوز جاری کیں جن میں اس کے زمینی دستوں نے شمالی غزہ میں ایک یوتھ سینٹر اور ایک مسجد کے قریب حماس کے راکٹ لانچروں کو دکھایا ہے۔ حالانکہ ویڈیوز کس جگہ فلمائے گئے ہیں، اس کی جانکاری نہیں دی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ویڈیوز کی صداقت کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کے 2.3 ملین باشندوں میں سے تقریباً 70 فیصد اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔ خوراک، ادویات، ایندھن اور پانی تیزی سے کم ہو رہا ہے، اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام اسکولوں میں پناہ گاہیں گنجائش سے باہر جارہی ہیں۔ نوبت یہ آگئی ہے کہ بہت سے لوگ باہر سڑکوں پر سو رہے ہیں۔ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس پیر کو آہستہ آہستہ بحال کر دی گئی۔