انقرہ: ترکیہ کے صدر اردوغان نے ایک بار پھر فلسطین میں اسرائیل کے قتل عام پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیاں دے کر ہمارے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ صدر اردوغان نے ان خیالات کا اظہار جمہوریہ ترکیہ کے بانی عظیم رہنما مصطفیٰ کمال اتاترک کی 85ویں برسی کے موقع پر دارالحکومت انقرہ میں منعقدہ یادگاری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
اردوغان نے کہا کہ اسرائیل نے دنیا کی نظروں کے سامنے انسانیت کے خلاف جرم کیا ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے زبردستی ان زمینوں پر قبضہ کیا ہے جہاں فلسطینی عوام ہزاروں سالوں سے رہ رہے ہیں وہاں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکیوں سے ہمارے صبر کا امتحان لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپنی تکنیکی برتری اور غیر اخلاقی ظلم و ستم کے باوجود، وہ دن قریب ہیں جب فلسطین کے معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا مقابلہ نہ کرنے والے اس خواب سے بیدار ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ یقیناً، ہم دسیوں ہزار لوگوں کی جانوں کے لیے جوابدہ ہوں گے، جن میں پیدا نہ ہونے والے بچوں سے لے کر معصوم بچوں، مظلوم عورتوں اور مردوں تک شامل ہیں۔
صدر اردوغان نے کہا کہ ان ظالموں میں سے ہر ایک اور ان کی حمایت کرنے والے ایک ہی جرم میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بطور ترکیہ، تمام پلیٹ فارمز پر اس کام کو آگے بڑھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں ریاستوں اور انتظامیہ کا ایک اہم حصہ اگرچہ ظلم پر آنکھیں بند کیے ہوئے ہے لیکن ان ممالک کے عوام کے ضمیروں سے ہر روز اٹھنے والی بڑھتی ہوئی آوازیں ہمیں انسانیت کے مستقبل کے لیے پرامید بناتی ہیں۔
اردوان نے غزہ میں قتل عام کے لیے اسرائیل کی حمایت کرنے پر امریکہ کی بھی تنقید کی۔ اردوغان نے کہا کہ امریکہ کے خلاف پوری دنیا میں احتجاج کیا جا رہا ہے، کیوں؟ کیونکہ غزہ میں اسرائیل کے قتل عام کی حمایت کرنے پر امریکہ کو بھی ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی وزیر خارجہ بلنکن روز اول سے ہی غلطی پر تھے، جب آپ اسرائیل جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ میں یہاں امریکی وزیر خارجہ ہونے کے علاوہ ایک یہودی کے طور پر آیا ہوں۔
اس کا ردعمل یہ ہے کہ 15 لاکھ لوگ اچانک ینی کاپی استنبول میں جمع ہو گئے۔ یہ ترکیہ کے مختلف حصوں میں بہت سی ایسی برادریوں کا اکٹھا ہونا ہے۔ انگلستان، فرانس حتی امریکہ میں ہزاروں لوگ وائٹ ہاؤس کے سامنے جمع ہوئے۔ اردوغان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ سفارت کاری کے تمام امکانات کو بروئے کار لاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں کہ میدان میں ان کے عوام پر مبنی نقطہ نظر کا جواب دیا جائے، انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کا حکم ہے کہ اس غلیظ جنگ کو جلد از جلد روکا جائے، کسی کو بھی اپنے آپ کو بین الاقوامی قانون سے باہر نہیں رکھنا چاہیئے اور ہر کسی کو ایسی لاپرواہی ظاہر ہونے پر اس کے خلاف موقف اختیار کرنا چاہیے بدقسمتی سے جس لاپرواہی کا میں نے ذکر کیا ہے اس کا مرکز اسرائیل ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
- اسرائیل، غزہ میں روزانہ چار گھنٹے کے وقفے پر راضی: امریکہ
- یہ جنگ نہیں بلکہ قتل عام ہے، اردوغان کی غزہ میں اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت
انہوں نے کہا کہ جب تک اسرائیل کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، ہمارے خطے یا دنیا میں مکمل امن اور کوئی مکمل بین الاقوامی قانونی نظم نہیں ہو سکتا۔ اردوغان نے کہا کہ اس وقت 60-70 فیصد اسرائیلی عوام وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کے خلاف ہیں۔ اردوغان نے کہا کہ حماس کو شہریوں کو یرغمال بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اس کے برعکس فلسطینیوں کی رہائی اسرائیل کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کو فوری رہا کرنے کی ضرورت ہے اور اس کے جواب میں حماس کے ہاتھوں اسرائیلیوں کی فوری رہائی بھی ہونی چاہیئے۔
واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوج کی بمباری 34 ویں روز بھی تاحال جاری ہے، جس کے باعث جاں بحق فلصطینیوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت اسرائیلی بمباری سے شہید فلسطینیوں کی تعداد 10 ہزار 812 ہوگئی ہے۔ جس میں 4 ہزار 412 بچے بھی شامل ہیں۔ جبکہ ابھی تک بے شمار لاشیں ملبے کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ ( یو این آئی مشمولات کے ساتھ)