تہران: ایرانی حکام نے ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلانے کے الزام میں ہفتے کے روز آسکر ایوارڈ جیتنے والی فلم کی اداکارہ ترانہ علی دوستی کو گرفتار کر لیا ہے۔ ایرانی سرکاری میڈیا کی رپورٹ کے مطابق 38 سالہ ایرانی اداکارہ نے انسٹاگرام پر بغیر اسکارف کے تصویر پوسٹ کر کے ایران میں جاری مظاہروں کی حمایت کی تھی۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق اداکارہ نے 8 دسمبر کو احتجاج میں شریک نوجوان کو پھانسی دینے کے روز سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ کی۔
اپنی پوسٹ میں اداکارہ نے کہا تھا کہ ان کا نام محسن شیکاری ہے۔ انھوں نے آگے لکھا کہ ہر وہ بین الاقوامی ادارہ جو اس خونریزی کو دیکھ رہا ہے اور کوئی کارروائی نہیں کر رہا دراصل یہ انسانیت کی توہین ہے۔ شیکاری کو 9 دسمبر کو ایران کی ایک عدالت کی طرف سے تہران میں سڑک کو بلاک کرنے اور ملکی سکیورٹی فورسز کے ایک رکن پر چاقو سے حملہ کرنے کے الزام میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔ ترانہ علی دوستی کی اس پوسٹ کو 10 لاکھ سے زائد افراد لائیک کرچکے ہیں۔
اداکارہ ترانہ علی دوستی نے اپنے کیرئیر میں کئی ایوارڈز جیتے ہیں جن میں خاص طور پر 'دی سیلز مین' کے لیے انھوں نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم نے 2016 میں بہترین غیر ملکی فلم کا آسکر ایوارڈ جیتا تھا، جس کے بعد وہ بہت زیادہ مشہور بھی ہو گئی تھیں۔ علی دوستی کو اس نسل کے سب سے بااثر ایرانی اداکاروں میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کی گرفتاری اس بات کی علامت ہے کہ ریاست ان مشہور شخصیات، فنکاروں اور کھیلوں کی شخصیات کے خلاف کریک ڈاؤن کرنا چاہتی ہے جنہوں نے حکومت کو چیلنج کرنے کے لیے اپنا پلیٹ فارم استعمال کیا ہے۔
حکومت مخالف مظاہروں کی حمایت میں اداکارہ ترانہ علی دوستی مشہور شخصیات کی گرفتاریوں کے سلسلے میں تازہ ترین ہے، جس میں فٹبالرز، اداکار اور دیگر شخصیات بھی شامل ہیں۔سرکاری میڈیا کے سرکاری ٹیلیگرام چینل پر شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، علی دوستی کو اس لیے گرفتار کیا گیا کیونکہ اس نے اپنے دعووں کے مطابق کوئی دستاویزات فراہم نہیں کرسکیں۔ رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ کئی دیگر ایرانی مشہور شخصیات کو بھی "اشتعال انگیز مواد شائع کرنے پر عدالتی ادارے نے طلب کیا ہے اور کچھ کو گرفتار کر لیا گیا ہے لیکن مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں گئی۔
یہ بھی پڑھیں:
Iran Supreme Leader niece arrested حکومت کی تنقید کرنے پر ایران کے سپریم لیڈر کی بھانجی گرفتار
Iran Protests فسادات بھڑکانے کے الزام میں سابق ایرانی صدر کی بیٹی گرفتار
علی دوستی سے قبل نومبر میں، دو دیگر مشہور ایرانی اداکاروں ہینگامہ غازیانی اور کتایون ریاحی کو حکام نے سوشل میڈیا پر مظاہرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے پر گرفتار کیا تھا۔ ایرانی فٹ بال کھلاڑی وریا غفوری کو بھی گزشتہ ماہ قومی فٹ بال ٹیم کی توہین اور حکومت کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ لیکن اب تینوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
ستمبر سے علی دوستی نے انسٹاگرام پر کم از کم تین پوسٹس میں کھل کر مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا اکاؤنٹ، جس کے تقریباً 8 ملین فالورز تھے، کو معطل کر دیا گیا ہے۔گزشتہ ہفتے، ایران نے مظاہروں کے سلسلے میں ایک دوسرے قیدی ماجد رضا راہنوارڈ کو پھانسی دی تھی۔ راہنوارڈ کی لاش کو تعمیراتی کرین سے لٹکا کر دوسروں کے عبرت کے لیے چھوڑ دیا گیا تھا۔ایرانی حکام نے الزام لگایا کہ راہنوارڈ نے ان کے نیم فوجی دستے کے دو ارکان کو چاقو مارا تھا۔
واضح رہے کہ 2006 میں سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کے دور حکومت میں بنائی گئی اخلاقی پولیس نے رواں سال ماہ سمتبر میں 22 سالہ لڑکی مہسا امینی کو سر نہ ڈھانپنے پر حراست میں لیا تھا۔مہسا امینی 16 ستمبر کو دوران حراست مبینہ طور پر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی تھی، جس کی ہلاکت کے خلاف ایران میں 17 ستمبر سے مظاہرے جاری ہیں۔ ایران میں انسانی حقوق کے کارکنان کے مطابق، مظاہروں کے آغاز کے بعد سے اب تک کم از کم 14 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جب کہ 63 بچوں سمیت کم از کم 458 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔