نئی دہلی: بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی اختلافات دور ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ خاص طور پر جب سے بھارت نے 41 سفارت کاروں کی فہرست کینیڈا کو سونپی ہے اور انہیں 10 اکتوبر تک بھارت چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تنازع ایک نئی سطح پر پہنچ گیا ہے۔ ادھر کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی اس معاملے پر قدرے نرم نظر آرہی ہیں۔ انہوں نے منگل کو کہا کہ کینیڈا سفارتی تنازعہ کے حل کے لیے بھارت کے ساتھ نجی بات چیت کرنا چاہتا ہے۔وہ منگل کو اوٹاوا میں میڈیا سے بات چیت کر رہی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارتی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہم کینیڈا کے سفارت کاروں کی سلامتی کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ ہم نجی طور پر بات کرنا جاری رکھیں گے کیونکہ ہمیں یقین ہے کہ سفارتی بات چیت اس وقت بہترین کام کرتی ہے جب وہ نجی رہے۔
ان کا یہ بیان بھارتی حکومت کی جانب سے کینیڈا کے ملک بدر کئے جانے والے 41 سفراتکاروں کی فہرست کے بعد آیا ہے۔ فہرست میں شامل 41 سفارت کاروں کو 10 اکتوبر تک بھارت چھوڑنا ہوگا۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں فہرست میں شامل سفارت کار اپنا سفارتی استثنیٰ کھو دیں گے۔ جب صحافیوں نے یہ سوال کینیڈا کی وزیر خارجہ میلانیا جولی سے خصوصی طور پر پوچھا تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں سفارتی معاملات پر بات کرنا اچھی بات نہیں۔ اس معاملے پر کینیڈین اپوزیشن لیڈر پیئر پوئیلیور نے کہا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے میں اس پر بہت فکر مند ہوں، میں پروفیشنل رہوں گا۔
کینیڈا کے وزیر اعظم ٹروڈو نے گزشتہ ماہ 18 ستمبر کو کینیڈین پارلیمنٹ میں خالصتانی رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل کے حوالے سے بیان دیا تھا ۔ جس میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ اس قتل میں حکومت ہند کے ایجنٹ ملوث ہیں۔ کینیڈین وزیر اعظم کے اس بیان کے بعد بھارت اور کینیڈا کے تعلقات میں کڑواہٹ آگئی ہے۔ بھارت نے اس الزام کو 'مضحکہ خیز' اور 'سیاسی طور پر محرک' قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ گزشتہ ہفتے امریکہ کے دورے کے دوران، بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ کینیڈا میں بھارتی سفارت کاروں کے خلاف 'تشدد اور دھمکی کا ماحول' ہے۔ انہوں نے کینیڈا کی حکومت پر سکھ علیحدگی پسند گروپوں کو پناہ دینے کا بھی الزام لگایا تھا۔