قطر نے سنہ 2018 میں دائرکردہ اس مقدمے میں یو اے ای کے خلاف خلیج بحران کے دوران میں امتیازی سلوک رکھنے کا الزام عاید کیا تھا اور یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ یو اے ای کے تنازع کے دوران میں اقدامات ہر طرح کے نسلی امتیازات کے خاتمے سے متعلق سنہ 1965 کے بین الاقوامی کنوینشن کی خلاف ورزی پر مبنی تھے۔
عالمی عدالتِ انصاف نے اپنے حتمی فیصلے میں یو اے ای کے ذریعے اٹھائے گئے اعتراضات کو برقرار رکھا ہے اور کہا ہے کہ قطر کی درخواست کی سماعت اس کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی ہے۔
قطر نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ ’یو اے ای نے قطریوں کے خلاف ان کی قومی شناخت کی بنا پر ایسے سلسلہ وار امتیازی اقدامات کا نفاذ کیا تھا جن کے نتیجے میں مبیّنہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا گیا تھا‘۔
عالمی عدالت انصاف کے صدر عبدالقوی احمد یوسف نے ہیگ میں حتمی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ’یو اے ای کے اقدامات کنوینشن میں واضع کردہ نسلی امتیاز کی تعریف کے زمرے میں نہیں آتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کو روس سے کورونا ویکسین کی پہلی کھیپ مل گئی
یو اے ای نے سعودی عرب، مصر اور بحرین کے ساتھ مل کر جون سنہ 2017 میں قطر کے ساتھ ہر قسم کے سفارتی، تجارتی اور ٹرانسپورٹ کے روابط منقطع کرلیے تھے اور اس پر شدت پسند گروپوں کی حمایت کا الزام عاید کیا تھا لیکن قطر نے اس الزام کی تردید کی تھی۔
اپنے فیصلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے متحدہ عرب امارات اور قطر دونوں ہی سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ کسی بھی طرح کے ایسے اقدامات سے گریز کریں، جن کی وجہ سے قطر اور دیگر عرب ریاستوں کے درمیان تنازعہ پیدا ہو۔
خیال رہے کہ رواں برس جنوری میں سعودی عرب کے تاریخی شہر العلاء میں خلیج تعاون کونسل کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ایک سمجھوتا طے پایا تھا۔ اس کے تحت مذکورہ چاروں ممالک نے قطر کے خلاف عائد کردہ پابندیاں ختم کر دی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ سفارتی اور کاروباری تعلقات بحال کر لیے ہیں۔ اس کے بعد یو اے ای نے قطر کے ساتھ اپنی سرحدیں دوبارہ کھول دی تھیں اور ان کے درمیان پروازیں بھی بحال ہوچکی ہیں۔