تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) نے مطالبہ کیا ہے کہ طالبان کے قبضے کے بعد دہشت گردی سے پاک افغانستان اور تنازع کے حل کے لیے بات چیت کی جائے۔
ڈان کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے اپنے بیان میں او آئی سی نے کہا کہ 'افغانستان کو دوبارہ کبھی دہشت گرد تنظیموں کو پناہ دینے کی اجازت نہیں دینی چاہیے'۔
بیان میں ملک میں موجودہ تنازع کے حل کے لیے جامع مذاکرات کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ تنظیم نے کہا کہ وہ 'امن، استحکام اور قومی مفاہمت' کی اہمیت پر زور دینے کے لیے نمائندے افغانستان بھیجے گی۔
جی سیون سمیت دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ اس بات پر غور کریں گے افغانستان میں صورتحال کو کیسے قابو میں لایا جائے۔ اپنے بیان میں اسلامی تعاون تنظیم نے افغانستان کی مستقبل کی قیادت اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان دوبارہ کبھی دہشت گردوں کے پلیٹ فارم یا پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہ ہو اور نہ وہاں دہشت گرد تنظیموں کو قدم جمانے کی اجازت دی جائے'۔
تنظیم نے افغانستان میں انسانی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا جہاں بے گھر افراد اور مہاجرین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ او آئی سی نے رکن ممالک، اسلامی مالیاتی اداروں اور پارٹنرز سے مطالبہ کیا کہ وہ ان علاقوں میں امداد فراہم کریں جہاں امداد کی ہنگامی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Taliban spokesperson: طالبان کی امریکہ کو تنبیہ
واضح رہے کہ طالبان نے 15 اگست کو کابل پر قبضہ کرلیا تھا جس کے بعد سے ملک میں حالات کشیدہ ہیں اور خصوصاً اقلیتیں اپنے مستقبل کے حوالے سے متذبذب صورتحال کا شکار ہیں۔
اس دوران طالبان نے خواتین کے حوالے سے اپنے موقف میں نرمی کا عندیہ دیا تھا۔ طالبان نے اشارہ کیا کہ خواتین کو مکمل ڈھانپنے والا برقع پہننے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ انہیں صرف حجاب پہننا ہے۔ طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں نے اشارہ دیا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم یا ملازمت میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ اگرچہ طالبان نے اس بار نرم موقف اپنانے کا عندیہ دیا ہے لیکن لوگ یقین نہیں کررہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: Taliban Viral Video: فتح کے بعد طالبان ارکان کا تفریحی ویڈیو وائرل
گزشتہ روز طالبان نے تمام سرکاری ملازمین سے عام معافی (General amnesty) دیتے ہوئے کام پر واپس آنے کی اپیل کی تھی۔ طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سب کے لیے عام معافی کا اعلان کیا جارہا ہے۔ ایسی صورتحال میں آپ پورے اعتماد کے ساتھ اپنی معمول کی زندگی شروع کرسکتے ہیں۔ اس کے باوجود لوگوں کے ذہن میں 1996 سے 2001 کی حکمرانی کے دوران زنا کے معاملے میں کوڑے مارنے، اسٹیڈیم، چوک چوراہوں پر پھانسی دینے اور سنگسار کرنے کی یادیں محفوظ ہیں۔
(یو این آئی)