عراقی دارالحکومت بغداد میں انتہائی سیکیورٹی والے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر گذشتہ روز کم از کم آٹھ راکٹ داغے گئے۔
گذشتہ روز آٹھ راکٹوں نے امریکی سفارت سفارتخانے کو نشانہ بنایا جس میں ایک عراقی سیکیورٹی گارڈ زخمی ہوگیا۔
امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اس حملے کا ذمہ دار ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کو قرار دیا ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے پومپیو کے بیان کی مذمت کی ہے۔
خطیب زادہ نے کہا کہ 'میں امریکہ کو خبردار کرتا ہوں کہ وہ خطے میں آگ لگانے اور تنازعہ کھڑا کرنے کی کوشش نہ کرے'۔
خطیب زادہ نے مزید کہا کہ وہ تقریبا ایک برس قبل یوکرین مسافر بردار طیارے کے مار گرائے جانے کی تحقیقات شروع کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ ایران کی جانب سے یوکرین میں مسافر بردار طیارے کو مار گرایا گیا تھا جس میں سوار تمام 176 افراد ہلاک ہوگئے تھے، ان میں سے بیشتر کینیڈا کے تھے۔
ایران نے طیارے کو مار گرانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ انسانی غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔
شواہد اور معلومات کی جانچ پڑتال کے لیے کینیڈا اپنی فارنسک ٹیم اور ایک خصوصی جانچ ٹیم تشکیل دے رہا ہے جس میں حال ہی میں اس معاملے میں ایران کی تحقیقات پر بھی سوال اٹھایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بیلاروس میں 150 مظاہرین حراست میں
خطیب زادہ نے کہا کہ کینیڈا متاثرین کے اہل خانہ کو اپنی سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
دوسری طرف متعدد گروپوں نے غیر متوقع طور پر اس حملے کی مذمت کی ہے۔ ان میں معروف مذہبی رہنما اور سابق جنگجو لیڈر مقتدی الصدر بھی شامل ہیں۔ عراقی شیعہ نیم فوجی گروپ کتائب حزب اللہ، جس پر ماضی میں اس طرح کے حملوں کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں، نے بھی کہا کہ 'امریکہ کے سفارت خانے پر اس وقت حملے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔‘
خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے عراق میں امریکی مفادات پر ہونے والے حالیہ حملوں کے لیے ایران کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور بغداد کو متنبہ کیا ہے کہ اگر وہ ان حملوں پر قابو پانے میں نا کام رہا تو امریکا عراق میں اپنا سفارت خانہ بند کر دے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نومبر میں کہا تھا کہ جنوری میں اپنے عہدے سے دست بردار ہونے سے قبل وہ عراق سے امریکی فوجوں کی تعداد میں تخفیف کر دیں گے۔