سفارتی ذرائع سے ملنے والی ان خبروں کی امارات کے مملکتی وزیر خارجہ انور قرقاش نے بھی عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق تصدیق کر دی ہے'۔ عرب خبر رساں ادارے کے مطابق انور قرقاش نے امریکی صاحب الرائے سے ایک آن لائن گفتگو میں کہا ہے کہ کئی عرب ممالک اسرائیل سے رابطوں میں ہیں اور مختلف مراحل میں بات چیت کا سلسلہ جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلسل جنگ و تنازعات میں گھرے اس خطے میں قیام امن کیلئے کو ایک بڑے پہل کی ضرورت ہے۔
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات امن کے رخ پر ہیں۔ واضح رہے کہ اردن یا مصر کی طرح امارات کی اسرائیل کے ساتھ کبھی جنگ نہیں ہوئی۔ ایک تنازعہ سفارتخانے کا بھی ہے جس کی بابت انور قرقاش نے کہا کہ امارات کا کوئی بھی سفارتخانہ یروشلم کے بجائے تل ابیب میں ہوگا۔
سابقہ صدی کے جنگ و تشدد میں بدترین زیاں کے بعد اکیسویں صدی کی اولین دہائی کے دوسرے سال ہی اس وقت کے سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ نے بیروت میں ایک عرب اسرائیل امن منصوبہ مشروط طور پر پیش کیا تھا جس کے مطابق عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کئے جانے کے عوض اسرائیل کو اپنی سرحد 1967ء میں ہونے والی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر لے جانا تھا۔
اٹھارہ سال بعد کے منظر نامے میں گذشتہ دنوں امارات اور اسرائیل میں جو امن معاہدہ طے پایا ہے اس کے تحت سر دست اسرائیل نے مزید فلسطینی علاقے ضم نہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ دو طرفہ تعلقات کے لیے امارات اور اسرائیل مل کر راہ ہموار کریں گے۔
مزید پڑھیں:
بھارت-چین کے مابین سرحدی امور پر بات چیت
انور قرقاش نے یہ بھی کہا کہ امارات اسرائیل کے ساتھ معاہدے کو امن کے رخ پر ایک موقع سمجھتا ہے۔ فلسطینی ہمیشہ امارات سے یہ تقاضا کرتے رہتے تھے کہ اسرائیل کی غرب اردن کے علاقوں کو ضم کرنے کی کارروائیاں رکوانے میں ان کی مدد کی جائے۔ اب امارات نے اس انضمام کی معطلی کو معاہدے کا حصہ بنا کر ایک اچھا معاملہ کیا ہے۔