ETV Bharat / international

رمضان المبارک کے دوران پناہ گزیں کیمپ میں شامی مہاجرین بدحال - ای ٹی وی بھارت اردو

شام کی جنگ 2011 میں اس وقت شروع ہوئی جب شامی شہریوں نے صدر بشار الأسد کے خلاف بغاوت کی۔

Ramadan in camp
Ramadan in camp
author img

By

Published : Apr 15, 2021, 12:30 PM IST

Updated : Apr 15, 2021, 1:13 PM IST

پوری دنیا میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ بازار سج چکے ہیں، مخلتف قسم کی کھانے اور پینے کی چیزیں دستیاب ہیں۔ روزہ افظار کے لئے دسترخوان سجے ہوئے ہیں لیکن شامی باشندے پناہ گزیں کیمپ میں ان تمام چیزوں سے محروم ہیں۔

رمضان المبارک کے دوران پناہ گزیں کیمپ میں شامی مہاجرین کی زندگی بدحال

ان کے پاس صرف پرانی یادیں ہیں، جس کے سہارے وہ زندگی کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہیں شامی باشندوں میں ام رجب کا کنبہ بھی ہے جو کبھی اپنے شوہر اور اپنے 14 بچوں کے ساتھ رمضان میں روزے رکھتی تھیں اور عبادات کرتی تھیں لیکن شام میں گزشتہ دس سالوں کی جنگ کے دوران جو اب بھی بدستور جاری ہے، انہوں نے اپنے شوہر سمیت کنبے کے بیشتر افراد کو کھو دیا ہے۔

گزشتہ سال ادلیب کے باغی زیر قبضہ علاقے پر فضائی حملوں کے دوران ام رجب کے شوہر کی موت ہوگئی تھی۔

اب وہ اپنے سب سے بڑے بیٹے، بچوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ شمالی ادلیب کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں رہتی ہیں۔

ام رجب کا کہنا ہے کہ "ہم خواب دیکھ رہے تھے کہ ہم کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن اب ہم ایک خیمے میں رہ رہے ہیں اور ہمارا پورا کنبہ الگ ہو گیا ہے۔ کچھ یہاں ہیں، کچھ لبنان میں ہیں، کچھ ترکی میں ہیں، اب ہم ساتھ نہیں ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے، خدا کیا چاہتا ہے؟"

شام کی جنگ 2011 میں اس وقت شروع ہوئی جب شامی شہریوں نے صدر بشار الأسد کے خلاف بغاوت کی۔

اس دوران شام میں مظاہرے تیزی سے تشدد میں تبدیل ہوگئے اور اسد کے سکیورٹی اہلکار کے کریک ڈاؤن کے باعث ملک کو خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس دوران ملک میں ام رجب کے شوہر سمیت تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

رمضان المبارک کے موقع پر مسلمان طلوع افتاب سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ عبادات کرتے ہیں۔

روزہ افطار کے موقع پر پورا کنبہ جمع ہوتا ہے اور ایک ساتھ افطاری کرتا ہے لیکن ام رجب کے لئے یہ سال کافی مشکلات والا سال ہے۔

وہ رمضان میں اپنے کنبے کے لئے سادہ کھانا تیار کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے نقل مکانی کے قبل وہ ایک ایئر اسٹرائک میں ہلاک ہو گئے، وہ شہید ہو گئے۔ اب میرے شوہر نہیں ہیں۔ اب میرے شوہر یہاں نہیں ہیں، میرے لڑکے یہاں نہیں ہیں، میری لڑکیاں یہاں نہیں ہیں۔ یہاں کچھ نہیں ہے''۔

ام رجب کے سب سے بڑے بیٹے رجب اور خاندان کے کئی لوگ خیمے میں ساتھ رہتے ہیں۔

رجب کا کہنا ہے کہ ''ہمارے گاؤں میں رمضان کے دوران پورے خاندان کے افراد اور پڑوسی ایک ساتھ جمع ہوتے تھے اور وہ کافی خوشی والا وقت تھا''

رجب کے لئے یہ رمضان پریشان کن ہے کیونکہ وہ اب بے گھر اور بغیر کسی کام کے ہے۔

پناہ گزین خاتون کھانا بناتے ہوئے
پناہ گزین خاتون کھانا بناتے ہوئے

انہوں نے مزید کہا کہ ''رمضان میں ہماری دکان کھلتی تھی۔ وہاں سے نکلنے کے قبل میں مٹھائی کی دکان چلاتا تھا۔ اب کوئی کام نہیں ہے، نقل مکانی بہت مشکل ہے، ہم لوگ ایک خیمے میں زندگی گزار رہے ہیں جو بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے والد کو کھو دیا ہے اور اب ہم اپنی سرزمین پر واپس جانے کے سوا کچھ نہیں چاہتے ہیں''

ظاہر ہے پناہ گزیں کیمپ میں زندگی گزارنا کافی پریشاکن ہے ایسے میں اقوام متحدہ کو پیش رفت کرنا چاہئے تاکہ ملک میں امن قائم ہو اور لوگ اپنے گھر واپس جا سکیں۔

پوری دنیا میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ بازار سج چکے ہیں، مخلتف قسم کی کھانے اور پینے کی چیزیں دستیاب ہیں۔ روزہ افظار کے لئے دسترخوان سجے ہوئے ہیں لیکن شامی باشندے پناہ گزیں کیمپ میں ان تمام چیزوں سے محروم ہیں۔

رمضان المبارک کے دوران پناہ گزیں کیمپ میں شامی مہاجرین کی زندگی بدحال

ان کے پاس صرف پرانی یادیں ہیں، جس کے سہارے وہ زندگی کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

انہیں شامی باشندوں میں ام رجب کا کنبہ بھی ہے جو کبھی اپنے شوہر اور اپنے 14 بچوں کے ساتھ رمضان میں روزے رکھتی تھیں اور عبادات کرتی تھیں لیکن شام میں گزشتہ دس سالوں کی جنگ کے دوران جو اب بھی بدستور جاری ہے، انہوں نے اپنے شوہر سمیت کنبے کے بیشتر افراد کو کھو دیا ہے۔

گزشتہ سال ادلیب کے باغی زیر قبضہ علاقے پر فضائی حملوں کے دوران ام رجب کے شوہر کی موت ہوگئی تھی۔

اب وہ اپنے سب سے بڑے بیٹے، بچوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ شمالی ادلیب کے ایک پناہ گزیں کیمپ میں رہتی ہیں۔

ام رجب کا کہنا ہے کہ "ہم خواب دیکھ رہے تھے کہ ہم کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں لیکن اب ہم ایک خیمے میں رہ رہے ہیں اور ہمارا پورا کنبہ الگ ہو گیا ہے۔ کچھ یہاں ہیں، کچھ لبنان میں ہیں، کچھ ترکی میں ہیں، اب ہم ساتھ نہیں ہیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ کیا کرنا ہے، خدا کیا چاہتا ہے؟"

شام کی جنگ 2011 میں اس وقت شروع ہوئی جب شامی شہریوں نے صدر بشار الأسد کے خلاف بغاوت کی۔

اس دوران شام میں مظاہرے تیزی سے تشدد میں تبدیل ہوگئے اور اسد کے سکیورٹی اہلکار کے کریک ڈاؤن کے باعث ملک کو خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس دوران ملک میں ام رجب کے شوہر سمیت تقریباً ڈیڑھ لاکھ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

رمضان المبارک کے موقع پر مسلمان طلوع افتاب سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ عبادات کرتے ہیں۔

روزہ افطار کے موقع پر پورا کنبہ جمع ہوتا ہے اور ایک ساتھ افطاری کرتا ہے لیکن ام رجب کے لئے یہ سال کافی مشکلات والا سال ہے۔

وہ رمضان میں اپنے کنبے کے لئے سادہ کھانا تیار کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے نقل مکانی کے قبل وہ ایک ایئر اسٹرائک میں ہلاک ہو گئے، وہ شہید ہو گئے۔ اب میرے شوہر نہیں ہیں۔ اب میرے شوہر یہاں نہیں ہیں، میرے لڑکے یہاں نہیں ہیں، میری لڑکیاں یہاں نہیں ہیں۔ یہاں کچھ نہیں ہے''۔

ام رجب کے سب سے بڑے بیٹے رجب اور خاندان کے کئی لوگ خیمے میں ساتھ رہتے ہیں۔

رجب کا کہنا ہے کہ ''ہمارے گاؤں میں رمضان کے دوران پورے خاندان کے افراد اور پڑوسی ایک ساتھ جمع ہوتے تھے اور وہ کافی خوشی والا وقت تھا''

رجب کے لئے یہ رمضان پریشان کن ہے کیونکہ وہ اب بے گھر اور بغیر کسی کام کے ہے۔

پناہ گزین خاتون کھانا بناتے ہوئے
پناہ گزین خاتون کھانا بناتے ہوئے

انہوں نے مزید کہا کہ ''رمضان میں ہماری دکان کھلتی تھی۔ وہاں سے نکلنے کے قبل میں مٹھائی کی دکان چلاتا تھا۔ اب کوئی کام نہیں ہے، نقل مکانی بہت مشکل ہے، ہم لوگ ایک خیمے میں زندگی گزار رہے ہیں جو بہت مشکل ہے۔ اللہ تعالیٰ سے مدد کی دعا کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے والد کو کھو دیا ہے اور اب ہم اپنی سرزمین پر واپس جانے کے سوا کچھ نہیں چاہتے ہیں''

ظاہر ہے پناہ گزیں کیمپ میں زندگی گزارنا کافی پریشاکن ہے ایسے میں اقوام متحدہ کو پیش رفت کرنا چاہئے تاکہ ملک میں امن قائم ہو اور لوگ اپنے گھر واپس جا سکیں۔

Last Updated : Apr 15, 2021, 1:13 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.