ETV Bharat / international

افغانستان: بگرام ایئر بیس سے امریکی فوج کا مکمل انخلا 4 جولائی تک - Bagram Air Base in afghanistan

سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں بگرام ائیر فیلڈ تعمیر کیا تھا۔

Bagram Air Base as last US soldiers set to leave
Bagram Air Base as last US soldiers set to leave
author img

By

Published : Jun 29, 2021, 8:40 PM IST

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شمال میں محض ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد یہ مقام تقریباً 20 سالوں سے امریکی فوجی طاقت کا اہم مرکز رہا ہے، جو جہار جانب سے فرنسنگ اور بلاسٹ چہاردیواری سے گھرا ہوا ہے۔

افغانستان: بگرام ایئر بیس سے امریکی فوج کا مکمل انخلا 4 جولائی تک

اس کی شروعات 9/11 کے حملوں کا بدلہ لینے کے لئے امریکی مہم کے طور پر دیکھی جاتی ہے، جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے پہلے ہی بگرام سے 50 فیصد سے زیادہ تیاری کرلی ہے اور باقی تیزی سے کام کیا جا رہا ہے تاکہ اس سائٹ کو پوری طرح خالی کیا جاسکے۔

امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر 4 جولائی تک امریکی فوج کا مکمل انخلا ہوجائے گا۔

اس کے بعد افغان فوج بگرام ایئر فیلڈ کو اپنے قبضے میں لے لے گی اور طالبان کے خلاف اس کی مسلسل لڑائی میں استعمال کرے گی۔

امریکی فوجی انخلا سے ملک میں کئی سوالات بھی پیدا ہوں گے۔ یہ دوسرا موقع پر جب افغانستان پر حملہ آور آئے اور اب بگرام سے واپس جا رہے ہیں۔ چند ہی دنوں میں آخری امریکی فوج بگرام ایئر فیلڈ سے رانہ ہوں گے۔

بگرام میں امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے ریٹائرڈ افغان جنرل سیف اللہ صفی کا کہنا ہے کہ بگرام کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

جنرل صفی کا کہنا ہے کہ "بگرام افغان فضائیہ کے لئے ایک بہت اچھے اور مضبوط اڈے کے طور پر کام میں لایا جا سکتا ہے اور اس کا استعمال کر کے پورے ملک پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر امن نہ ہوا اور لڑائی جاری رہی تو مجھے یقین ہے کہ مزاحمت کی دوسری لہر بگرام سے شروع ہوگی، جو امن نہں چاہتے ہیں۔''

جب 2001 میں امریکی اور نیٹو فوج نے بگرام کو اپنے قبضے میں لیا تو اس وقت یہ گرتی ہوئی عمارتوں کے کھنڈرات کے طور پر تھا، جس پر راکٹ کے گولے داغے گئے تھے اور اس کا زیادہ تر حصہ تباہ تھا۔

طالبان کو کابل سے بے دخل کرنے کے بعد امریکہ کی زیرقیادت اتحاد نے اپنے تشدد پسند اتحادیوں کے ساتھ مل کر بگرام کی تعمیر نو کے لئے کام کرنا شروع کیا، پہلے عارضی ڈھانچے تیار کئے گئے پھر اسے پختہ کیا گیا۔

یہاں سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں ائیر فیلڈ تعمیر کیا تھا، جب 1979 میں کمیونسٹ حکومت کی پشت پناہی کرنے کے لئے سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس نے اسے اپنے مرکزی اڈے کے طور پر تیار کیا جہاں سے وہ اس ملک پر اپنے قبضے کا دفاع کر سکتا تھا۔

10 سال تک روس نے امریکی حمایت یافتہ مجاہدین کا مقابلہ کیا، صدر رونالڈ ریگن نے آزادی پسند شدت پسندوں کو ہرایا، اور انہوں نے انہیں سرد جنگ کی آخری لڑائی میں فرنٹ لائن فورسز کے طور پر محسوس کیا۔

سوویت یونین نے 1989 میں افغانستان سے انخلا کے لئے بات چیت کی۔ تین سال بعد ماسکو کی حامی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور مجاہدین نے اقتدار حاصل کر لیا اور اس دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔

اس دوران طالبان نے 1996 میں کابل کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

جنرل صفی نے بتایا کہ روس نے انخلا کے دوران اپنا سارا سامان یہاں چھوڑ دیا تھا۔

جنرل صفی نے بتایا کہ "جب سوویت نے ملک چھوڑا، تو انہوں نے اپنے تمام اضافی سامان یہاں چھوڑ دئے، خاص طور پر ایئر فورس کے لئے ہتھیار، بھاری ہتھیار، اسکارٹ میزائل، چھوٹے ہتھیار، گولہ بارود وغیرہ اور ان سب سامانوں کو کمیونسٹ حکومت کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی فوج کے حوالے کردیا۔"

امریکیوں نے افغان فوج کو کچھ ہتھیار اور دیگر سامان دئے ہیں۔ کوئی اور چیز جو وہ نہیں لے جا رہے ہیں، وہ اسے تباہ کر رہے ہیں یا بگرام کے آس پاس کے اسکریپ ڈیلرز کو فروخت کررہے ہیں۔

امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی قابل استعمال چیز کبھی بھی طالبان کے قبضے میں نہ آسکے۔

گذشتہ ہفتے امریکی سنٹرل کمانڈ نے کہا تھا کہ اس نے 14،790 سامان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے 763 سی 17 طیارے سے افغانستان سے باہر بھیجا تھا۔

بگرام کے قریب کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ اڈے کے اندر سے دھماکوں کی آوازیں سنتے ہیں، بظاہر امریکی عمارتوں اور سامان کو تباہ کرتے ہیں۔

بگرام ضلع میں اس بیس کے قریب 100 دیہات ہیں، جہاں باغات اور کاشتکاری ہوتی ہے، ان کے لئے یہ ایئر بیس روزگار کا ذریعہ ہے۔

ضلع گورنر درویش رؤفی نے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا کا اثر تقریباً سبھی گھروں پر پڑےگا۔ رؤفی نے کہا کہ بہت سے دیہی باشندوں نے ان سے امریکہ کے ذریعے بیکار چیزیں پھینکنے کی شکایت کی ہے۔

رؤفی نے کہا کہ "وہ سامان جو بگرام ایئر بیس کے اندر امریکی افواج کا تھا، اسے تباہ کیا جا رہا ہے اور توڑا جا رہا ہے، یہاں تک کہ کچھ عمارتیں تباہ کی گئی ہیں۔ جب ہم ان امریکیوں کے پاس گئے اور ان سے کئی بار کہا کہ کم از کم ہمیں وہ سامان دے دیں، جو کام کرنے کی حالت میں ہیں تو انہوں نے انکار کر دیا۔''

یہ بھی پڑھیں: امریکہ 650 فوجیوں کو مزید کچھ مدت کی لیے افغانستان میں رکھے گا

اس ایئر بیس میں موجود جیل کو 2012 میں افغانوں کے حوالے کیا گیا تھا اور وہ اس کا کام جاری رکھیں گے۔

ملک بھر میں بہت سارے لوگوں کے لئے "بگرام" کا مطلب ایئر بیس نہیں تھا بلکہ اس کا مطلب بدنام جیل تھا۔ والدین جیل کا ذکر کر اپنے روتے بچوں کو ڈراتے تھے۔

ذبیح اللہ نے چھ سال بگرام میں گزارے، ان کا تعلق گُلبدین حکمت یار کے دھڑے سے تھا، جو امریکہ کے مطابق ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے 2016 میں حکمت یار کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے بعد گزشتہ سال ذبیح اللہ رہا ہوئے۔

اس ایئر بیس پر دو رن وے ہے۔ آخری بار 2006 میں 12 ہزار فیٹ لمبا رن وے 96 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا تھا۔

110 ریوٹمنٹ ہیں، جو بنیادی طور پر ہوائی جہاز کے لئے پارکنگ کے مقامات ہیں اور بلاسٹ وال سے محفوظ ہیں۔

عالمی سلامتی کا کہنا ہے کہ بگرام میں تین بڑے ہینگر، ایک کنٹرول ٹاور اور متعدد عمارتیں ہیں۔

یہاں 50 بستروں پر مشتمل ایک اسپتال ہے جس میں ٹراما سینٹر، تین آپریٹنگ تھیٹر اور دانتوں کا جدید کلینک ہے۔ بدنام زمانہ جیل کے ساتھ ساتھ یہاں فٹنس سنٹرز اور فاسٹ فوڈ ریستوراں بھی موجود ہیں۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل کے شمال میں محض ایک گھنٹے کی ڈرائیونگ کے بعد یہ مقام تقریباً 20 سالوں سے امریکی فوجی طاقت کا اہم مرکز رہا ہے، جو جہار جانب سے فرنسنگ اور بلاسٹ چہاردیواری سے گھرا ہوا ہے۔

افغانستان: بگرام ایئر بیس سے امریکی فوج کا مکمل انخلا 4 جولائی تک

اس کی شروعات 9/11 کے حملوں کا بدلہ لینے کے لئے امریکی مہم کے طور پر دیکھی جاتی ہے، جس کے بعد ملک میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا ہو گئی۔

امریکی سینٹرل کمانڈ نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے پہلے ہی بگرام سے 50 فیصد سے زیادہ تیاری کرلی ہے اور باقی تیزی سے کام کیا جا رہا ہے تاکہ اس سائٹ کو پوری طرح خالی کیا جاسکے۔

امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ ممکنہ طور پر 4 جولائی تک امریکی فوج کا مکمل انخلا ہوجائے گا۔

اس کے بعد افغان فوج بگرام ایئر فیلڈ کو اپنے قبضے میں لے لے گی اور طالبان کے خلاف اس کی مسلسل لڑائی میں استعمال کرے گی۔

امریکی فوجی انخلا سے ملک میں کئی سوالات بھی پیدا ہوں گے۔ یہ دوسرا موقع پر جب افغانستان پر حملہ آور آئے اور اب بگرام سے واپس جا رہے ہیں۔ چند ہی دنوں میں آخری امریکی فوج بگرام ایئر فیلڈ سے رانہ ہوں گے۔

بگرام میں امریکی فوج کے ساتھ کام کرنے والے ریٹائرڈ افغان جنرل سیف اللہ صفی کا کہنا ہے کہ بگرام کا مستقبل غیر یقینی ہے۔

جنرل صفی کا کہنا ہے کہ "بگرام افغان فضائیہ کے لئے ایک بہت اچھے اور مضبوط اڈے کے طور پر کام میں لایا جا سکتا ہے اور اس کا استعمال کر کے پورے ملک پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر امن نہ ہوا اور لڑائی جاری رہی تو مجھے یقین ہے کہ مزاحمت کی دوسری لہر بگرام سے شروع ہوگی، جو امن نہں چاہتے ہیں۔''

جب 2001 میں امریکی اور نیٹو فوج نے بگرام کو اپنے قبضے میں لیا تو اس وقت یہ گرتی ہوئی عمارتوں کے کھنڈرات کے طور پر تھا، جس پر راکٹ کے گولے داغے گئے تھے اور اس کا زیادہ تر حصہ تباہ تھا۔

طالبان کو کابل سے بے دخل کرنے کے بعد امریکہ کی زیرقیادت اتحاد نے اپنے تشدد پسند اتحادیوں کے ساتھ مل کر بگرام کی تعمیر نو کے لئے کام کرنا شروع کیا، پہلے عارضی ڈھانچے تیار کئے گئے پھر اسے پختہ کیا گیا۔

یہاں سوویت یونین نے 1950 کی دہائی میں ائیر فیلڈ تعمیر کیا تھا، جب 1979 میں کمیونسٹ حکومت کی پشت پناہی کرنے کے لئے سوویت یونین نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس نے اسے اپنے مرکزی اڈے کے طور پر تیار کیا جہاں سے وہ اس ملک پر اپنے قبضے کا دفاع کر سکتا تھا۔

10 سال تک روس نے امریکی حمایت یافتہ مجاہدین کا مقابلہ کیا، صدر رونالڈ ریگن نے آزادی پسند شدت پسندوں کو ہرایا، اور انہوں نے انہیں سرد جنگ کی آخری لڑائی میں فرنٹ لائن فورسز کے طور پر محسوس کیا۔

سوویت یونین نے 1989 میں افغانستان سے انخلا کے لئے بات چیت کی۔ تین سال بعد ماسکو کی حامی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور مجاہدین نے اقتدار حاصل کر لیا اور اس دوران ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔

اس دوران طالبان نے 1996 میں کابل کے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

جنرل صفی نے بتایا کہ روس نے انخلا کے دوران اپنا سارا سامان یہاں چھوڑ دیا تھا۔

جنرل صفی نے بتایا کہ "جب سوویت نے ملک چھوڑا، تو انہوں نے اپنے تمام اضافی سامان یہاں چھوڑ دئے، خاص طور پر ایئر فورس کے لئے ہتھیار، بھاری ہتھیار، اسکارٹ میزائل، چھوٹے ہتھیار، گولہ بارود وغیرہ اور ان سب سامانوں کو کمیونسٹ حکومت کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کی فوج کے حوالے کردیا۔"

امریکیوں نے افغان فوج کو کچھ ہتھیار اور دیگر سامان دئے ہیں۔ کوئی اور چیز جو وہ نہیں لے جا رہے ہیں، وہ اسے تباہ کر رہے ہیں یا بگرام کے آس پاس کے اسکریپ ڈیلرز کو فروخت کررہے ہیں۔

امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں یقینی بنانا ہے کہ کوئی بھی قابل استعمال چیز کبھی بھی طالبان کے قبضے میں نہ آسکے۔

گذشتہ ہفتے امریکی سنٹرل کمانڈ نے کہا تھا کہ اس نے 14،790 سامان کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے 763 سی 17 طیارے سے افغانستان سے باہر بھیجا تھا۔

بگرام کے قریب کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ اڈے کے اندر سے دھماکوں کی آوازیں سنتے ہیں، بظاہر امریکی عمارتوں اور سامان کو تباہ کرتے ہیں۔

بگرام ضلع میں اس بیس کے قریب 100 دیہات ہیں، جہاں باغات اور کاشتکاری ہوتی ہے، ان کے لئے یہ ایئر بیس روزگار کا ذریعہ ہے۔

ضلع گورنر درویش رؤفی نے کہا کہ امریکی فوج کے انخلا کا اثر تقریباً سبھی گھروں پر پڑےگا۔ رؤفی نے کہا کہ بہت سے دیہی باشندوں نے ان سے امریکہ کے ذریعے بیکار چیزیں پھینکنے کی شکایت کی ہے۔

رؤفی نے کہا کہ "وہ سامان جو بگرام ایئر بیس کے اندر امریکی افواج کا تھا، اسے تباہ کیا جا رہا ہے اور توڑا جا رہا ہے، یہاں تک کہ کچھ عمارتیں تباہ کی گئی ہیں۔ جب ہم ان امریکیوں کے پاس گئے اور ان سے کئی بار کہا کہ کم از کم ہمیں وہ سامان دے دیں، جو کام کرنے کی حالت میں ہیں تو انہوں نے انکار کر دیا۔''

یہ بھی پڑھیں: امریکہ 650 فوجیوں کو مزید کچھ مدت کی لیے افغانستان میں رکھے گا

اس ایئر بیس میں موجود جیل کو 2012 میں افغانوں کے حوالے کیا گیا تھا اور وہ اس کا کام جاری رکھیں گے۔

ملک بھر میں بہت سارے لوگوں کے لئے "بگرام" کا مطلب ایئر بیس نہیں تھا بلکہ اس کا مطلب بدنام جیل تھا۔ والدین جیل کا ذکر کر اپنے روتے بچوں کو ڈراتے تھے۔

ذبیح اللہ نے چھ سال بگرام میں گزارے، ان کا تعلق گُلبدین حکمت یار کے دھڑے سے تھا، جو امریکہ کے مطابق ایک دہشت گرد تنظیم ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے 2016 میں حکمت یار کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے بعد گزشتہ سال ذبیح اللہ رہا ہوئے۔

اس ایئر بیس پر دو رن وے ہے۔ آخری بار 2006 میں 12 ہزار فیٹ لمبا رن وے 96 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار کیا گیا تھا۔

110 ریوٹمنٹ ہیں، جو بنیادی طور پر ہوائی جہاز کے لئے پارکنگ کے مقامات ہیں اور بلاسٹ وال سے محفوظ ہیں۔

عالمی سلامتی کا کہنا ہے کہ بگرام میں تین بڑے ہینگر، ایک کنٹرول ٹاور اور متعدد عمارتیں ہیں۔

یہاں 50 بستروں پر مشتمل ایک اسپتال ہے جس میں ٹراما سینٹر، تین آپریٹنگ تھیٹر اور دانتوں کا جدید کلینک ہے۔ بدنام زمانہ جیل کے ساتھ ساتھ یہاں فٹنس سنٹرز اور فاسٹ فوڈ ریستوراں بھی موجود ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.