ترکی نے اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں دو دھڑوں کے مابین پائیدار امن کی امید رکھنے والے مجوزہ مذاکرات کو کابل میں تشدد کے نئے واقعات کے درمیان ملتوی کردیا گیا ہے۔ امریکہ بھی اس مذاکرات کی حمایت کرتا رہا ہے۔
یہ گفتگو ہفتے کے روز استنبول میں شروع ہونی تھی۔ اس مجوزہ امن مذاکرات کے التوا کے بعد افغانستان سے امریکی و نیٹو فوجیوں کے انخلا معاملے معاملے میں بھی کئی پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں۔ حالانکہ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ یکم مئی سے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی واپسی کا عمل شروع کردے گا اور جو بھی ہو 11 ستمبر تک یہ عمل مکمل کرلے گا۔
ترکی کے وزیر خارجہ میلوت کاوسوگلو نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا ہے کہ یہ مذاکرات رمضان کے مہینے تک ملتوی کردی گئی ہے۔ رمضان کا اختتام مئی کے آخر میں ہوگا۔
اس کے اعلان سے چند گھنٹے قبل ایک خودکش بم دھماکے میں پانچ افراد ہلاک ہوگئے، جب کابل میں افغان سکیورٹی فورسز کے قافلے پر حملہ ہوا۔
وزارت داخلہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ زخمیوں میں سیکیورٹی اہلکار اور عام شہری شامل ہیں۔
حالیہ ہفتوں میں دارالحکومت میں یہ پہلا حملہ ہے حالانکہ افغان سکیورٹی اہلکاروں کے ذریعہ طالبان پر حملے میں اضافہ ہوا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ طالبان کے ذریعہ بھی ٹاگیٹ حملے میں اضافہ ہوا ہے۔
پچھلے کچھ مہینوں کے دوران مشتبہ طالبان کے ٹھکانوں اور سرکاری اسپیشل فورس کے چھاپوں پر حکومتی دستوں کی بمباری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
وزیر نے کہا کہ مذاکرات کو ہفتے کو شروع ہونے کا امکان تھا لیکن اب اسے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ تاہم انہوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔