برطانوی عدالت کے جج ونیسا بیریٹسر نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’یہ تسلیم کرنے کی معقول بنیاد ہے کہ اگر مسٹر اسانج (49) کو آج رہا کیا جاتا ہے تو وہ عدالت میں خود سپردگی کرنے اور اپیل کی کارروائی کا سامنا کرنے کے لیے ناکام ہوں گے‘۔
عدالت کا فیصلہ آنے سے کچھ دن قبل مسٹر اسانج امریکہ میں اپنی حوالگی سے بچنے میں ناکام رہے ہیں جہاں انہیں جاسوسی قانون کی خلاف ورزی کرنے اور حکومت کے کمپیوٹروں کو ہیک کرنے کی سازش رچنے کے لیے مجرمانہ الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اسانجے سنہ 2012 سے ضمانت کے ضابطوں کی خلاف ورزی کے الزام میں لندن کے بیل مارش جیل میں قید ہیں۔
وکی لیکس کے چیف ایڈیٹر کرسٹین ہفنسن نے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ کے باہر کہا کہ ان کی قانونی طور پر ضمانت سے انکار کرنے کے فیصلے پر اپیل کی جارہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
'کیپیٹل ہل کے مناظر شرمناک تھے'
امریکہ: بائیڈن اور کملا کی کامیابی کی توثیق کی، 20 جنوری کو حلف برداری
گذشتہ روز برطانوی عدالت نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو امریکہ کے حوالے کرنے پر روک لگا دی تھی۔ جس کے جولین اسانج نے عدالت میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔
خیال رہے کہ لندن کے ایکواڈور سفارت خانے سے نکالے جانے کے بعد جولین اسانج کو 11 اپریل 2012 میں لندن میں گرفتار کرلیا گیا تھا اور تب انہیں 50 ہفتے کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس کے بعد سے معاملے کی مسلسل سماعت ہو رہی ہے لیکن وہ امریکہ کے حوالے کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اسانج پر سویڈن میں ایک خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے الزام لگے تھے۔ امریکہ نے اسانج کی حوالگی کے لیے برطانیہ سے درخواست بھی تھی اور انہیں امریکہ کو سونپنے کی بات بھی کی تھی۔
اسانج دراصل تب سرخیوں میں آئے تھے جب سنہ 2010 میں انہوں نے کئی خفیہ سیاسی دستاویزات انٹرنیٹ پر عام کر دیے تھے، جس میں افغانستان اور عراق میں امریکی فوج کی جانب سے جنگی جرائم کے غلط استعمال کیے جانے سے منسلک دستاویزات بھی شامل تھے۔