ETV Bharat / international

Indian officials role in Kashmir: برطانوی پولیس کشمیر میں تحقیقات کیوں کرے؟

لندن میں مقیم ایک قانونی فرم نے برطانوی پولیس کے سامنے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کشمیر میں جنگی جرائم میں مبینہ کردار (alleged roles in war crimes in Kashmir) پر بھارت کے آرمی چیف اور بھارتی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

UK police asked to probe Indian officials role in Kashmir
UK police asked to probe Indian officials role in Kashmir
author img

By

Published : Jan 20, 2022, 1:58 PM IST

لندن کی ایک قانونی فرم نے کشمیر میں حکام کے خلاف انسانی حقوق کی مبینہ زیادتیوں کی تحقیقات کیلئے برطانوی پولیس کے پاس ایک کیس دائر کیا ہے جس میں کئی ذمہ دار حکام کو گرفتاری کیلئے نامزد کیا ہے۔

لندن میں مقیم ایک قانونی فرم نے منگل کو برطانوی پولیس کے سامنے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کشمیر میں جنگی جرائم میں مبینہ کردار (alleged roles in war crimes in Kashmir) پر بھارت کے آرمی چیف اور بھارتی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

لا فرم اسٹوک وائٹ (Law firm Stoke White) نے کہا کہ اس نے میٹروپولیٹن پولیس کے وار کرائمز یونٹ کو بہت سارے ثبوت جمع کرائے ہیں جن دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح جنرل منوج مکند نروانے اور وزیر داخلہ امت شاہ (Manoj Mukund Naravane and Home Affairs Minister Amit Shah)کی سربراہی میں بھارتی فورسز، صحافیوں اور شہریوں کے تشدد، اغوا اور قتل کے ذمہ دار ہیں۔

قانونی فرم کی رپورٹ 2020 اور 2021 کے درمیان لی گئی 2,000 سے زیادہ شہادتوں پر مبنی ہے۔

اس رپورٹ میں آٹھ سینئر بھارتی فوجی اہلکاروں، جن کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے، کو بھی شامل کیا گیا ہے جن پر کشمیر میں جنگی جرائم اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ اس رپورٹ سے آگاہ نہیں ہے اور اس نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔وزارت داخلہ نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

رپورٹ میں ہمالیائی خطے کا حصہ بننے والے علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "اس بات پر یقین کرنے کی پختہ وجہ ہے کہ بھارتی حکام جموں اور کشمیر میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم اور دیگر تشدد کر رہے ہیں۔"

لندن پولیس کو یہ درخواست "عالمی دائرہ اختیار" (universal jurisdiction) کے اصول کے تحت دی گئی ہے، جو ممالک کو دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔

لندن میں بین الاقوامی قانونی فرم (The international law firm in London) نے کہا کہ اس کا خیال ہے کہ کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم (war crimes in Kashmir) پر بھارتی حکام کے خلاف بیرون ملک کی قانونی کارروائی کے متعلق اس کی درخواست پہلی بار ہے۔

اسٹوک وائٹ میں بین الاقوامی قانون کے ڈائریکٹر ہاکان کاموز (Hakan Camuz, director of international law at Stoke White) نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ رپورٹ برطانوی پولیس کو تحقیقات شروع کرنے پر راضی کرے گی اور بالآخر ان اہلکاروں کو گرفتار کر لے گی جب وہ برطانیہ میں قدم رکھیں گے۔ کچھ بھارتی حکام کے اثاثے اور برطانیہ سے دیگر روابط ہیں۔

کیمز نے کہا "ہم برطانیہ کی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا فرض ادا کریں اور ان کی تحقیقات کریں اور ان کے کاموں کے لیے انہیں گرفتار کیا جائے جس کے ثبوت ہم نے فراہم کئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کا احتساب کیا جائے۔"

اسٹوک وائٹ کے مطابق پولیس درخواست پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشی ضیاء مصطفیٰ کے خاندان کی جانب سے دی گئی تھی جسے 2021 میں بھارتی حکام کے ہاتھوں مبینہ طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے محمد احسن اونتو کی جانب سے بھی درخواست دی گئی جنہیں گزشتہ ہفتے گرفتاری سے قبل مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اونتو کو حکام نے اس ماہ کے اوائل میں سرینگر سے گرفتار کیا ہے۔ وہ انسانی حقوق سے متعلق ایک مقامی ادارے کے سربراہ ہیں۔

کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان منقسم ہے، جو دونوں اس خطے پر مکمل دعویٰ کرتے ہیں۔

کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دسیوں ہزار شہری، عسکریت پسند اور سرکاری فوج کے اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

کشمیریوں اور بین الاقوامی حقوق کے گروپوں نے طویل عرصے سے بھارتی فوجیوں پر منظم بدسلوکی اور گرفتاریوں کا الزام لگایا ہے۔

انسانی حقوق گروپوں نے عسکریت پسند گروپوں کے طرز عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر شہریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی لگایا ہے۔

2018 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ( U.N. human rights chief called for an independent international investigation) کی رپورٹوں کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

بھارت کی حکومت نے مبینہ طور پر حقوق کی خلاف ورزیوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے دعوے علیحدگی پسند پروپیگنڈہ ہیں جس کا مقصد خطے میں بھارتی فوجیوں کو غلط ثابت کرنا ہے۔

قانونی فرم کی تحقیقات نے تجویز دی ہے کہ کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران شہریوں کے تئیں فورسز کے منفی رویے میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کی رپورٹ میں گزشتہ سال بھارت کے انسداد دہشت گردی حکام کے ہاتھوں خطے کے سب سے ممتاز انسانی حقوق کارکن خرم پرویز کی گرفتاری کے بارے میں تفصیلات بھی شامل ہیں۔

42 سالہ پرویز نے جموں اور کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (Jammu and Kashmir Coalition of Civil Society) کے لیے کام کیا، جس نے بھارتی فوجیوں کے تشدد اور تشدد کے استعمال کے بارے میں وسیع رپورٹیں لکھی ہیں۔ رپورٹ کے دیگر اکاؤنٹس میں صحافی سجاد گل کے بارے میں بات کی گئی ہے، جسے اس ماہ کے شروع میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب انہوں نے ایک باغی کمانڈر کے قتل پر احتجاج کرنے والے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کی ویڈیو پوسٹ کی تھی۔

انسانی حقوق کے وکلاء نے ان لوگوں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے عالمی دائرہ اختیار کے اصول کے تحت مقدمہ درج کرایا ہے جو اپنے آبائی ممالک میں یا ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت (the International Criminal Court, located in The Hague) میں مجرمانہ شکایات درج کرنے سے قاصر تھے۔

گزشتہ ہفتے جرمنی کی ایک عدالت نے شام کے ایک سابق خفیہ پولیس افسر کو ایک دہائی قبل دمشق کے قریب ایک جیل میں ہزاروں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: Global Bodies on Khurram: انسانی حقوق کے اداروں کا خرم پرویز کی رہائی کا مطالبہ

کاموز نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ برطانوی پولیس بھارتی پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کی درخواست کے بعد دیگر قانونی کارروائیوں کے لیے کشمیر پر توجہ مرکوز کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ "ہمیں یقین ہے کہ یہ آخری نہیں ہے، شاید اور بھی بہت سی درخواستیں ہوں گی۔" (اے پی)

لندن کی ایک قانونی فرم نے کشمیر میں حکام کے خلاف انسانی حقوق کی مبینہ زیادتیوں کی تحقیقات کیلئے برطانوی پولیس کے پاس ایک کیس دائر کیا ہے جس میں کئی ذمہ دار حکام کو گرفتاری کیلئے نامزد کیا ہے۔

لندن میں مقیم ایک قانونی فرم نے منگل کو برطانوی پولیس کے سامنے ایک درخواست دائر کی ہے جس میں کشمیر میں جنگی جرائم میں مبینہ کردار (alleged roles in war crimes in Kashmir) پر بھارت کے آرمی چیف اور بھارتی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

لا فرم اسٹوک وائٹ (Law firm Stoke White) نے کہا کہ اس نے میٹروپولیٹن پولیس کے وار کرائمز یونٹ کو بہت سارے ثبوت جمع کرائے ہیں جن دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح جنرل منوج مکند نروانے اور وزیر داخلہ امت شاہ (Manoj Mukund Naravane and Home Affairs Minister Amit Shah)کی سربراہی میں بھارتی فورسز، صحافیوں اور شہریوں کے تشدد، اغوا اور قتل کے ذمہ دار ہیں۔

قانونی فرم کی رپورٹ 2020 اور 2021 کے درمیان لی گئی 2,000 سے زیادہ شہادتوں پر مبنی ہے۔

اس رپورٹ میں آٹھ سینئر بھارتی فوجی اہلکاروں، جن کی شناخت مخفی رکھی گئی ہے، کو بھی شامل کیا گیا ہے جن پر کشمیر میں جنگی جرائم اور تشدد میں براہ راست ملوث ہونے کا الزام ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق بھارتی وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ اس رپورٹ سے آگاہ نہیں ہے اور اس نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا ہے۔وزارت داخلہ نے بھی کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

رپورٹ میں ہمالیائی خطے کا حصہ بننے والے علاقے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "اس بات پر یقین کرنے کی پختہ وجہ ہے کہ بھارتی حکام جموں اور کشمیر میں شہریوں کے خلاف جنگی جرائم اور دیگر تشدد کر رہے ہیں۔"

لندن پولیس کو یہ درخواست "عالمی دائرہ اختیار" (universal jurisdiction) کے اصول کے تحت دی گئی ہے، جو ممالک کو دنیا میں کہیں بھی انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کا اختیار دیتا ہے۔

لندن میں بین الاقوامی قانونی فرم (The international law firm in London) نے کہا کہ اس کا خیال ہے کہ کشمیر میں مبینہ جنگی جرائم (war crimes in Kashmir) پر بھارتی حکام کے خلاف بیرون ملک کی قانونی کارروائی کے متعلق اس کی درخواست پہلی بار ہے۔

اسٹوک وائٹ میں بین الاقوامی قانون کے ڈائریکٹر ہاکان کاموز (Hakan Camuz, director of international law at Stoke White) نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ رپورٹ برطانوی پولیس کو تحقیقات شروع کرنے پر راضی کرے گی اور بالآخر ان اہلکاروں کو گرفتار کر لے گی جب وہ برطانیہ میں قدم رکھیں گے۔ کچھ بھارتی حکام کے اثاثے اور برطانیہ سے دیگر روابط ہیں۔

کیمز نے کہا "ہم برطانیہ کی حکومت سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنا فرض ادا کریں اور ان کی تحقیقات کریں اور ان کے کاموں کے لیے انہیں گرفتار کیا جائے جس کے ثبوت ہم نے فراہم کئے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ان کا احتساب کیا جائے۔"

اسٹوک وائٹ کے مطابق پولیس درخواست پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے رہائشی ضیاء مصطفیٰ کے خاندان کی جانب سے دی گئی تھی جسے 2021 میں بھارتی حکام کے ہاتھوں مبینہ طور پر نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے محمد احسن اونتو کی جانب سے بھی درخواست دی گئی جنہیں گزشتہ ہفتے گرفتاری سے قبل مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔

اونتو کو حکام نے اس ماہ کے اوائل میں سرینگر سے گرفتار کیا ہے۔ وہ انسانی حقوق سے متعلق ایک مقامی ادارے کے سربراہ ہیں۔

کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان منقسم ہے، جو دونوں اس خطے پر مکمل دعویٰ کرتے ہیں۔

کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دسیوں ہزار شہری، عسکریت پسند اور سرکاری فوج کے اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

کشمیریوں اور بین الاقوامی حقوق کے گروپوں نے طویل عرصے سے بھارتی فوجیوں پر منظم بدسلوکی اور گرفتاریوں کا الزام لگایا ہے۔

انسانی حقوق گروپوں نے عسکریت پسند گروپوں کے طرز عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان پر شہریوں کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی لگایا ہے۔

2018 میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں ( U.N. human rights chief called for an independent international investigation) کی رپورٹوں کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

بھارت کی حکومت نے مبینہ طور پر حقوق کی خلاف ورزیوں کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے دعوے علیحدگی پسند پروپیگنڈہ ہیں جس کا مقصد خطے میں بھارتی فوجیوں کو غلط ثابت کرنا ہے۔

قانونی فرم کی تحقیقات نے تجویز دی ہے کہ کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران شہریوں کے تئیں فورسز کے منفی رویے میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کی رپورٹ میں گزشتہ سال بھارت کے انسداد دہشت گردی حکام کے ہاتھوں خطے کے سب سے ممتاز انسانی حقوق کارکن خرم پرویز کی گرفتاری کے بارے میں تفصیلات بھی شامل ہیں۔

42 سالہ پرویز نے جموں اور کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی (Jammu and Kashmir Coalition of Civil Society) کے لیے کام کیا، جس نے بھارتی فوجیوں کے تشدد اور تشدد کے استعمال کے بارے میں وسیع رپورٹیں لکھی ہیں۔ رپورٹ کے دیگر اکاؤنٹس میں صحافی سجاد گل کے بارے میں بات کی گئی ہے، جسے اس ماہ کے شروع میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب انہوں نے ایک باغی کمانڈر کے قتل پر احتجاج کرنے والے خاندان کے افراد اور رشتہ داروں کی ویڈیو پوسٹ کی تھی۔

انسانی حقوق کے وکلاء نے ان لوگوں کے لیے انصاف کے حصول کے لیے عالمی دائرہ اختیار کے اصول کے تحت مقدمہ درج کرایا ہے جو اپنے آبائی ممالک میں یا ہیگ میں واقع بین الاقوامی فوجداری عدالت (the International Criminal Court, located in The Hague) میں مجرمانہ شکایات درج کرنے سے قاصر تھے۔

گزشتہ ہفتے جرمنی کی ایک عدالت نے شام کے ایک سابق خفیہ پولیس افسر کو ایک دہائی قبل دمشق کے قریب ایک جیل میں ہزاروں قیدیوں کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر انسانیت کے خلاف جرائم کا مجرم قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: Global Bodies on Khurram: انسانی حقوق کے اداروں کا خرم پرویز کی رہائی کا مطالبہ

کاموز نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ برطانوی پولیس بھارتی پولیس اہلکاروں کی گرفتاری کی درخواست کے بعد دیگر قانونی کارروائیوں کے لیے کشمیر پر توجہ مرکوز کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ "ہمیں یقین ہے کہ یہ آخری نہیں ہے، شاید اور بھی بہت سی درخواستیں ہوں گی۔" (اے پی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.