دونوں سربراہان کے درمیان شام کی صورت حال بالخصوص شمال مشرقی شام میں کردوں کے خلاف ترکی کا فوجی آپریشن زیر بحث آئے گا۔
روس کے سفر سے قبل رجب طیب اردگان نے کہا کہ 'اگر امریکہ نے اپنے کیے ہوئے وعدے پورے نہ کیے تو ترکی شام میں اپنا آپریشن زیادہ طاقت کے ساتھ آگے بڑھائے گا۔' انہوں نے دھمکی دی کہ اگر کردوں نے اپنا انخلا مکمل نہ کیا تو ترکی کی فورسز دوبارہ حملہ شروع کر دیں گی۔ اردگان کا کہنا تھا کہ وہ ولادی میر پوتین کے ساتھ اس امر پر بات چیت کریں گے کہ شام کی آئین ساز کمیٹی کی نمایاں پیش رفت کو کس طرح یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ شامی حکومت کے زیر کنٹرول علاقوں سے کردوں کے انخلا کو بھی زیر بحث لائیں گے۔
اس سے قبل اردگان نے فرانس کے صدر میخواں کی اس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں شام میں فائر بندی کی مہلت میں توسیع پر زور دیا گیا تھا۔ یہ مہلت آج شام مقامی وقت کے مطابق 7 بجے ختم ہو رہی ہے۔
اردگان اور پوتین کی ملاقات سے قبل ماسکو نے شامی اراضی پر کسی بھی غیر قانونی مسلح عسکری وجود کی تشکیل کو مسترد کر دیا تھا۔ روسی وزیر خارجہ کے بیان کے مطابق انقرہ اور بشار حکومت کے درمیان بات چیت شروع کیے جانے کی ضرورت ہے۔
ترکی کے ایک سینئر ذمے دار کے مطابق انقرہ حکومت اردگان اور پوتین کے درمیان ملاقات میں شامی حکومت کے نقطہ نظر اور آئندہ اقدامات کے بارے میں معلومات حاصل کرے گی۔
روسی صدر کے معاون یوری اوشاکوف نے بتایا کہ ان کا ملک شمال مشرقی شام میں ترکی کے فوجی آپریشن کے حوالے سے روسی وزارت دفاع کے ذریعے شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ مستقل رابطے میں ہے۔
دوسری جانب ترکی کے ایوان صدر کے ترجمان ابراہیم کالن نے ایک بار پھر ترکی کے اس موقف کو دہرایا ہے کہ علاقے سے مسلح کردوں کے مکمل انخلا کی صورت میں انقرہ حکومت شمال مشرقی شام میں اپنی فوجی کاروائیاں روک دے گی۔
دوسری جانب العربیہ اور الحدث نیوز چینلوں کو بشار حکومت کی طرف سے سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے دفتر بھیجے گئے خط کی کاپی موصول ہوئی ہے۔ اس خط میں ترکی کے ساتھ سرحدی علاقوں میں شامی شہریوں کی صورت حال کی شکایت کی گئی ہے جس نے ترکی کے فوجی آپریشن کے نتیجے میں جنم لیا۔ اس کے علاوہ سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی امن و سلامتی برقرار رکھنے کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے پوری کرے۔
ادھر ترکی کی حکومت کا اصرار ہے کہ بشار الاسد کے حوالے سے اس کے موقف میں کوئی تبدیل واقع نہیں ہوئی ہے۔ تاہم انقرہ اور بشار حکومت کے درمیان سیکورٹی رابطوں کے بارے میں خبریں اس موقف کے متضاد حقائق پیش کر رہی ہیں۔