گذشتہ برس 15 مارچ کو نیوزی لینڈ کے کرائس چرچ میں ایک شخص نے جمعہ کے روز دو مسجدوں میں گھس کر نمازیوں پر اندھا دھندھ فائرنگ کر دی تھی۔ جس میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
آج اس حادثے کو ایک برس ہو چکے ہیں لیکن اب تک اس کے مجرموں کو سزا نہیں ہوئی ہے۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جسنڈا آرڈن نے اس حادثے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا یہ نیوزی لینڈ کا سب سے تاریک دن ہے۔ اس کے باوجود اب تک 51 معصوموں کی جان لینے والوں کو ان کے انجام تک نہیں پہنچایا جا سکا ہے۔
خیال رہے کہ نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مسجد النور اور لنووڈ مسجد میں جمعہ کی نماز کے موقع پر 29 سالہ برنٹن ٹیرینٹ نامی ایک شخص نے شوشل میڈیا پر ویڈیو لائیو کرنے کے ساتھ ہی مسجد میں پہنچ کر لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا تھا۔
اس دوران مسجد النور میں ہی بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم تھی، تاہم ٹیم میں سے کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں ہوا تھا۔
مقامی انتطامیہ نے بھی اسے دہشت گردانہ حملہ قرار دیتے ہوئے اسے تاریخ کا سیاہ ترین دن قرار دیا تھا۔ ایک برس گذر جانے کے بعد نیوزی لینڈ کے لوگ اظہار ہمدردی تو ضرور کرتے ہیں تاہم مہلوکین کے اہل خانہ کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔
اس حملے کے ملزم کو کرائسٹ چرچ کی عدالت میں پیش کیا گیا اور بغیر کسی درخواست کے اسے 5 اپریل تک پولیس تحویل میں بھیج دیا گیا تھا۔
دنیا بھر میں مختلف ممالک کے سربراہان نے اس حملے کی سخت مذمت کی تھی، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ا نٹونیو گوٹیریس نے کہا کہ وہ نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چرچ میں قائم دو مساجد میں شدت پسندانہ حملےسے حیران ہیں۔
ان تمام رد عمل کے باوجود مجرمین کو سزا نہیں دی جا سکی ہے۔ اس لیے دیکھنے والی بات ہو گی کہ وزیر اعظم جسنڈا آرڈن متاثرین کے زخموں پر کب تک مرہم لگا سکیں گی۔