یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کا آج چوتھا دن ہے۔ Russia Attacks Ukraine چنانچہ روس کے حملے میں شدت بھی آئی ہے۔
آج صبح سے روسی فوج یوکرین کے دوسرے سب سے بڑے شہر کھارکیو میں بھی داخل ہوگئی ہے جہاں اس نے گیس پائپ لائن کو تباہ کر دیا۔
وہیں یوکرین روس جنگ Russia Ukraine War کے درمیان روس نے یوکرین کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
روسی خبر رساں ادارے کے مطابق کریملن نے کہا کہ وہ بیلاروس میں یوکرین کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن یوکرین کے صدر نے بیلاروس میں مذاکرات کرنے سے منع کردیا۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے اتوار کو کہا کہ معاہدے کے مطابق روسی وفد جس میں وزارت خارجہ، وزارت دفاع اور صدارتی انتظامیہ سمیت دیگر ایجنسیوں کے نمائندے شامل ہیں، یوکرائنیوں کے ساتھ بات چیت کے لیے بیلاروس پہنچ گیا ہے۔
تاہم یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر جاری کردہ ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ وہ بیلاروس کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک میں روس کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے روس کے ساتھ جنگ میں بیلاروس کے ملوث ہونے کا بھی حوالہ دیا۔
زیلینسکی نے کہا کہ اس وقت، ہم بیلاروس کے دارالحکومت منسک میں مذاکرات نہیں کرسکتے ہیں۔ دوسرے شہر ملنے کی جگہ ہو سکتے ہیں۔ یقیناً ہم امن چاہتے ہیں، ہم ملنا چاہتے ہیں، ہم جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
یہ شہر وارسا، بریٹی سلاوا، بوڈاپیسٹ، استنبول، باکو ہوسکتے ہیں، ہم نے یہ سب کچھ روس کو تجویز کیا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جس کے علاقے سے راکٹ نہیں اڑ رہے ہیں۔ یہی واحد راستہ ہے کہ بات چیت ایماندارانہ ہو سکتی ہے اور واقعی جنگ کو ختم کر سکتی ہے"۔
یہ بھی پڑھیں:
Russia Attacks Ukraine: یوکرین کے صدر نے کہا، ہم ہتھیار نہیں ڈالیں گے
بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے ہفتے کے روز اعلان کیا تھا کہ منسک مذاکرات کے انعقاد کے لیے جگہ فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔
وہیں روس کی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بیلاروسی صدر الیگزینڈر لوکاشینکو نے یوکرین کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ بیٹھ کر روس کے ساتھ امن مذاکرات کریں تاکہ ملک اپنی ریاستی حیثیت سے محروم نہ ہو۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے پیر کو یوکرین کے الگ ہونے والے علاقوں - ڈونیٹسک اور لوہانسک کو آزاد اداروں کے طور پر تسلیم کیا تھا۔ بعد میں، پوتن نے ڈونباس کے علاقے میں لوگوں کے تحفظ کے لیے خصوصی فوجی آپریشن کا حکم دیا۔
روس کو حالیہ اقدامات پر خاص طور پر مغربی ممالک کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی سمیت متعدد ممالک نے روس پر پابندیوں کے نئے دور کا اطلاق کیا ہے۔