فرانس کے صدر امینوئل میكروں نے اس بات کی تردید کی ہے کہ جی ۔7 ممالک کے رہنماوءں نے اس پلیٹ فارم کی جانب سے جوہری مسئلے پر ایران سے بات چیت کرنے کی ذمہ داری انہیں سونپی ہے۔
اس سے قبل فرانس کی میڈیا نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ دی تھی کہ جی ۔7 ممالک نے بيارج معاہدوں کے نتائج کی بنیاد پر جوہری معاہدے کے مستقبل کے مسئلہ پر ایران کو پیغام دینے کی ذمہ داری جناب میكروں کو دی ہے۔
اطلاعات کے مطابق فرانس، اٹلی، جرمنی، برطانیہ، امریکہ، کناڈا، جاپان اور یورپی یونین (ای یو) کے قائدین نے اس مسئلے پر میكروں کو مذاکرات کا انعقاد کرنے اور ایران کو پیغام دینے کا کام سونپا ہے۔
فرانس کے سفارتی ذرائع کے مطابق ان کی گفت و شنید کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار معاہدے سے ہٹنے سے روکنا اور علاقے میں کشیدگی کو کم کرنا ہے۔
بعد میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بھی اس بات کی تردید کی تھی کہ کانفرنس میں اس معاملے پر کسی طرح کی بحث ہوئی تھی۔
میكروں نے بيارج میں صحافیوں سے کہا کہ ’’ایران کے مسئلے پر ہم نے کل بات ضرور کی تھی، پہلی بات یہ ہے کہ جی ۔7 کا کوئی بھی ملک اس کے حق میں نہیں ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوں۔
''دوسری بات جی -7 کے رکن ممالک علاقے میں امن و استحکام کے سلسلے میں پرعزم ہیں اور کوئی بھی ملک ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہے گا جس سے علاقے میں بدامنی اور عدم استحکام پیدا ہو۔ ہم نے اسی دائرے میں رہ کر مختلف مسائل پر تبادلہ خیال کیا‘‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ جی -7 ایک باضابطہ کلب ہے اور کوئی بھی ملک ایک دوسرے کو ذمہ داري نہیں سونپ سکتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ فرانس کے بیارج میں جی -7 چوٹی کانفرنس چل رہی ہے اور 24 سے 26 اگست تک فرانس میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں وزیر اعظم نریندر مودی حصہ لے رہے ہیں۔
جی -7 دنیا کے سات سب سے ترقی یافتہ اور صنعتی سپر پاور کی تنظیم ہے۔ اسے گروپ آف سیون (جی 7) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔