یورپی پارلیمنٹ نے برطانیہ کے یورپی یونین سے علیحدگی کی شرائط کو بھاری اکثریت سے منظور کرلیا - چار سالہ بریگزٹ کی کہانی میں یہ فیصلہ حتمی اور اہم تھا۔
مجموعی طور پر 683 ارکان میں سے 621 نے بریگزٹ ڈیل کے حق میں جبکہ 49 ارکان نے مخالفت میں ووٹنگ کی۔ اور 13 ارکان غیر حاضر رہے۔ جس سے متعلق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے گذشتہ برس یورپی یونین کے دیگر 27 رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کی تھی۔
بیجلیئم کے دارالحکومت برسلز میں واقع یورپی یونین کے پارلیمنٹ کے سیشن میں جذباتی انداز میں بریگزٹ کی حمایت کی گئی۔ اور یورپی یونین کے سبھی 28 ممالک سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے اظہار محبت اور اظہار افسوس بھی کیا۔
پارلیمنٹ کا ماحول خوشگوار ہونے کے ساتھ ہی بے حد غمگین اور حساس تھا، اس موقع پر کئی ارکان اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور رونے لگے۔ سبھی نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر اس لمحے کو یادگار بنایا۔
مزید پڑھیں: بریگزٹ کی پوری کہانی آسان انداز میں سمجھیئے
خیال رہے کہ برطانیہ نے سنہ 1973 میں یورپین یونین کو جوائن کیا تھا، جب اس نام یورپین یونین کے بجائے یورپی اقصادی کمیٹی تھا۔ آخر کار برطانیہ 47 برسوں کی رکنیت کے بعد 31 جنوری سنہ 2020 کو یوروپی یونین سے علیحدہ ہو جائے گا۔
یورپین یونین کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی نے یورپی یونین کو چھوڑا ہے۔ برطانیہ کے اس طرح ای یو سے علیحدہ ہونے کے بعد ای یو کے ممالک کی تعداد 27 رہ جائے گی۔
یورپین یونین کی مختصر تاریخ
پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کو کسی تیسری جنگ سے بچانا، اور سبھی اتحادی ممالک کے درمیان بغیر کسی ٹیرف کے آزادانہ طور پر تجارت کرنا تھا۔ اس اتحاد کی کوشش تھی کی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرح معاشی اور سیاسی سپر پاور کا درجہ حاصل کیا جا سکے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے سبھی ممالک پُرامن انداز میں رہ سکیں اور ایک دوسرے کی معاشی مدد کر سکیں۔انہیں مقاصد کے تحت 23 جولائی سنہ 1952ء میں مغربی جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیئم، نیدرلینڈز اور لکسمبرگ نے کوئلے اور اسٹیل کی ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کا نام 'یورپین کمیونٹی' رکھا گیا۔
بعد ازاں یکم جنوری سنہ 1958 میں کمیٹی کے رکن ممالک نے اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایک دیگر معاہدے پر دستخط کرتے ہوئے 'یورپین اقتصادی کمیونٹی' کی تشکیل دی۔ اب یہ کمیونٹی کوئلے، اسٹیل اور تجارت کے لیے تشکیل دی گئی تھی۔
رفتہ رفتہ یورپ کے ممالک اس کمیونٹی میں شامل ہونے لگے۔سنہ 1973 میں 'یونائٹیڈ کنگڈم' (برطانیہ) نے بھی 'یورپی اقتصادی کمیونیٹی' میں شمولیت اختیار کر لی۔
شمولیت کے دو برسوں کے بعد ہی سنہ 1975 میں یوکے کی عوام میں پہلی بار 'یورپین اقتصادی کمیونیٹی' سے باہر نکلنے کے لیے آواز اٹھنی شروع ہو گئی۔آخرکار یوکے میں اس کے لیے ریفرنڈم کرائے گئے، لیکن 68 فیصد یوکے کے باشندوں نے کمیونٹی کا حصہ بنے رہنے کے حق میں ووٹ دیا اور اس طرح یوکے 'یورپی اقتصادی کمیونٹی' کا حصہ برقرار رہا۔
یکم نومبر سنہ 1993 میں 'ماسٹرچٹ' نامی ایک معاہدے کے تحت 'یورپین اقتصادی کمیونٹی' کا نام بدل کر 'یورپین یونین' رکھ دیا گیا۔ اب یہ ممالک نہ صرف سیاست اور اقتصادیات، بلکہ قوانین اور خارجی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے گے۔
سنہ 2004 میں یورپین یونین نے اپنی کرنسی 'یورو' کو بھی لانچ کر دیا۔ فی الحال 28 ممالک میں سے 19 ممالک یورو کرنسی کا استعمال کرتے ہیں۔یورپین یونین کی اپنی پارلیمنٹ بھی ہے۔ اس کا دارالحکومت برسلس، جو کہ بیلجیئم کا بھی دارالحکومت ہے۔
یورپین یونین کی پارلیمنٹ میں بنایا گیا قانون سبھی رکن ممالک پر نافذ ہوتا ہے۔سنہ 2010 کے بعد کچھ ایسے حالات پیش آئے کہ تقریبا 37 برسوں کے بعد برطانوی عوام نے دوبارہ ریفرنڈم کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ آخر کار سنہ 2016 میں ریفرنڈم ہوا اور اکثریت نے بریگزٹ کے حق میں ووٹنگ کی۔
اس طرح چار برسوں کی جد و جہد کے بعد برطانیہ کی قسمت کا فیصلہ 31 جنوری سنہ 2020 کو ہو جائے گا۔