عراق اور شام کے بیشتر علاقوں پر شدت پسند تنظیم 'داعش' کے قبضے کے دوران ہزاروں یزیدی خواتین اور بچوں کو داعش نے اغوا کر لیا تھا۔
اغوا کی گئی خواتین اور بچوں میں سے اکثر اپنے گھروں کو واپس صحیح سلامت لوٹ چکے ہیں۔
ناون راشو داروش نے بتایا کہ وہ سوتے وقت بھی ڈری ہوتی تھی اور جاگنے کے بعد بھی۔ ان پر ہر وقت خوف طاری رہتا تھا۔ ایک دن انہوں نے خود کے یزیدی ہونے سے متعلق انکشاف کرنے کا ارادہ کیا اور داعش کے عسکریت پسندوں کو بتایا کہ وہ یزیدی ہیں۔
انہیں اس بات کا اندازہ بھی نہیں تھا کہ سب کچھ اتنا آسان ہو جائےگا۔
ناون داروش کے مطابق جب انہیں اغوا کیا گیا تھا اس وقت وہ 19 برس کی تھیں۔ انہیں شام لے جایا گیا جہاں ان پر ایک عسکریت پسند سے شادی کرنے کے لیے دباو ڈالا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ جب داعش کے قبضے سے بیشتر علاقے نکل گئے تب انہیں دیگر خواتین اور بچوں کے ساتھ عراق کے سرحد کے قریب 'الحول' مہاجر کیمپ میں لاکر چھوڑ دیا گیا۔ اس کیمپ میں انہوں نے انتہائی خوف کے ماحول میں وقت گذارے۔
ایک مرتبہ دو صحافیوں نے ان کےکیمپ کا دورہ کیا تبھی انہوں نے ان سے رہائی کے سلسلے میں مدد کی درخواست کی۔
آخر کار دونوں صحافیوں نے ان کو رہا کرانے میں مدد کی اور جون ماہ کے اوائل میں وہ اپنے گھر واپس عراق لوٹ آئیں۔
گھر واپس آنے کے بعد ناون نے اپنے سبھی گھر والوں سے ملاقات کی لیکن اس دوران ان کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ یہ ناون کے لیے انتہائی مشکل گھڑی تھی۔
ماں کے انتقال پر ناون داروش کو بے حد تکلیف ہوئی لیکن انہیں خوشی اس بات کی ہے کہ وہ موت کے پنجے سے آزاد ہو کر آئی ہیں۔
اب تک 6 ہزار 417 اغوا شدہ یزیدیوں میں سے 3 ہزار 425 افراد داعش کے قبضے سے آزاد ہو چکے ہیں۔ 2 ہزار 992 بچوں میں سے 1 ہزار 921 بچوں کو بھی مشکلات سے نکالا جا سکا ہے۔