سی آئی اے کی سازش کا حصہ رہے مرحوم احمد شاہ مسعود کے قریبی ساتھی امر اللہ صالح، جنہوں نے خود کو افغانستان کا نگراں صدر قرار دیا ہے، اب پھر سے طالبان کی طاقت کو چیلینج کرنے کے لیے خبروں میں واپس نظر آنے لگے ہیں۔
کمانڈر مسعود کے مارے جانے کے بعد جب طالبان نے افغانستان پر حکومت کی تب وہ اکیلے شخص تھے جنہوں نے طالبان کے خلاف کھڑنے ہونے کی ہمت دکھائی تھی۔ کمانڈر مسعود کی موت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان سے انٹرویو کے بہانے کچھے حملہ آور صحافیوں کی شکل میں آئے اور انہیں بم دھماکے میں اڑا دیا۔ مسعود کے پینٹاگون حکام اور سی آئی اے کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔
مسعود کی خودکش بم دھماکے میں ہوئی موت کے بعد صالح کو جانکاری اکٹھا کرنے کے لیے سی آئی اے کی جانب سے مدد اور تربیت فراہم کی گئی تھی۔ صالح نے تاجکستان میں اپنا اڈا بنالیا تھا اور جب تک امریکی فوج افغانستان کی سرزمین پر اتری نہیں تب تک وہ یہیں سے طالبان کے خلاف اپنی کارروائیوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔
مسعود ایک تاجک تھا، جو افغانستان کے نمایاں نسلی گروہوں میں سے ایک ہے۔ مسعود کی پکڑ کابل کے شمال میں واقع وادیٔ پنجشیر میں مضبوط تھی، یہ اس وقت ایک ضلع ہوا کرتا تھا، جسے بعد میں صدر کرزئی کے دور میں افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک کے طور پر شامل کرلیا گیا۔ پنجشیر طالبان مخالف تمام کارکنان کا گڑھ تھا، جس کی قیادت خود کمانڈر مسعود کررہے تھے۔
کمانڈر مسعود کے 31 سالہ بیٹے احمد مسعود بھی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے طالبان کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں۔ احمد مسعود نے عزم کرلیا ہے کہ وہ نہ صرف پورے افغانستان کو طالبان کے کنٹرول سے آزاد کرے گا بلکہ اپنے والد کے قتل کا بدلہ بھی لے گا۔ اپنے والد کے چھوڑے گئے ہتھیاروں اور مقصد کو زندہ رکھنے والے احمد مسعود نے اپنے تمام مسلح افراد کے ساتھ صالح کی مکمل حمایت کا اعلان کیا ہے۔
احمد شاہ مسعود کا پنجشیر اب اپنے بیٹے کے کمانڈ میں بہت مختلف نظر آتا ہے۔ یہ وادی کبھی طالبان سے پاک ہوا کرتی تھی لیکن اب یہاں طالبان کے کچھ حامی موجود ہیں۔ ان میں کچھ تاجک بھی ہیں جیسے کمانڈر خراسانی، جنہوں نے مسعود کے پنجشیر سے طالبان کے لیے صالح کو آنکھیں دکھائی ہیں۔
اس خطے میں صالح امریکہ کی اکلوتی کمائی ہیں اور انہیں اس سے بہت زیادہ توقع تھی۔امریکہ نے ان پر طویل مدتی سرمایہ کاری کی ہے کیونکہ صالح جاسوسی کے کھیل کو بہت اچھی طرح سے سمجھتے ہیں۔ سی آئی اے نے انہیں معلومات جمع کرنے کی مہارت سے روبرو کروایا ہے۔ دراصل وہ افغانستان میں امریکہ کا ایک بڑا اثاثہ تھا۔
امریکہ نے طالبان کے خلاف بہتر دفاع کی توقع کی تھی کیونکہ طالبان سے جاری جنگ میں امریکہ صالح کے ذریعہ دفاعی نظام کو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم کررہا تھا اور اگر مشترکہ حکومت سازی کے لیے مذاکرات کی نوبت آتی ہے تو افغان حکومت بہتر اور مضبوط طریقے سے اپنی دعویداری پیش کرسکے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ حالانکہ امریکہ کو بھی یہ علم تھا کہ افغان حکومت طالبان کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گی لیکن انہوں نے یہ تصور نہیں کیا تھا کہ بغیر مزاحمت کے وہ اتنی آسانی سے اقتدار پر قابض ہوجائیں گے۔ امریکہ کو توقع تھی کہ اقتدار میں نصف سے کم حصہ صالح کی قیادت والی شمالی اتحاد کے کنٹرول میں آجائے گا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ امریکہ کو طالبان کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا اندیشہ تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے فروری 2020 میں دوحہ میں طالبان کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں واضح طور پر ذکر کیا تھا کہ ' طالبان ان لوگوں کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت نامے یا دیگر قانونی دستاویزات فراہم نہیں کریں گے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی حفاظت کے لیے خطرہ بنیں گے'۔
معاہدے میں امریکہ نے جس طرح طالبان کو مخاطب کیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ باغی دوبارہ اقتدار سنبھالیں گے۔ انہیں یہ بھی احساس ہوگیا تھا کہ انہیں بطور ریاست تسلیم کیا جائے گا۔ درحقیقت یہ معاہدہ کہتا ہے کہ امریکہ دوحہ کے، طالبان امریکہ معاہدے کو 'جائز' بنانے میں سہولت فراہم کرے گا۔
مزید پڑھیں:طالبان کی آفیشیل ویب سائٹ انٹرنیٹ سے غائب
معاہدے کے تیسرے حصے میں ذکر ہے کہ 'امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کرے گا کہ وہ دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کو تسلیم کرے اور اس کی توثیق کرے'۔ اس معاہدے میں امریکہ افغان کی نئی اسلامی حکومت کے ساتھ تعمیر نو کے لیے معاشی تعاون بھی چاہتا ہے، جیسا کہ بین الافغان مذاکرات کے ذریعہ طے کیا گیا ہے، اس کے علاوہ طالبان کی زیر قیادت حکومت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکہ، افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ سے محتاط تھا تاکہ وہ بھاری جانی نقصان اور معیشت کی تباہی سے بچ سکے۔ اس لیے وہ طالبان سے صرف ایک بھروسہ کے ساتھ ملک چھوڑنا چاہتے تھا کہ وہ امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو نقصان پہنچانا بند کردے گا۔
اس معاہدے میں بار بار ذکر کیا گیا ہے کہ افغانستان، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ نہیں ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب پہلے سے لکھا جاچکا ہے اور یہ اس معاہدے کے مطابق ہی ہے جس پر امریکہ اور طالبان دونوں نے اتفاق کیا ہے۔ لیکن ایک چیز ہے جو امریکہ کو پریشان کررہی ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں ان کے اتحادیوں نے طالبان کے خلاف جوابی حملہ کرنے کی ہمت نہیں دکھائی اور ہتھیار ڈال دیئے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ یہ نہیں چاہتا کہ افغانستان کا جدید ترین ہتھیاروں سے لیس افغان فضائیہ طالبان کے ماتحت ہوجائے۔
افغانستان میں آئندہ اسلامی حکومت میں شمالی اتحاد کی نمائندگی کو برقرار رکھتے ہوئے امریکہ چاہتا تھا کہ صالح کو طالبان کی قیادت میں پارلیمنٹ میں مینڈیٹ دیا جائے۔ صالح پاکستان مخالف رہنما ہے اور امریکی مفاد کے لیے چین کے کسی بھی پروجیکٹ کو افغانستان میں کامیاب نہیں ہونے دے گا۔ صالح جیسے رہنماؤں کی موجودگی میں طالبان کے لیے حکومت سازی کرنا چیلنجنگ ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ نے جس نیت کے ساتھ طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا تھا صالح امریکہ کی اسی امید پر پنجشیر میں طالبان کی پیش قدمی کے خلاف چٹان کی طرح کھڑا ہے۔