ETV Bharat / international

ماسکو سے واپسی کے دوران راجناتھ سنگھ نے تہران کا دورہ کیوں کیا؟

author img

By

Published : Sep 7, 2020, 1:07 PM IST

وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے ہفتے کے روز تہران میں ایران کے اپنے ہم منصب برگیڈیئر جنرل عامر حتامی سے بات چیت کی۔ راجناتھ سنگھ، ماسکو سے نئی دلی واپسی کے دوران تہران پہنچ گئے جبکہ دونوں ممالک کے وزرا کے درمیان میٹنگ خوشگوار ماحول میں ہوئی۔

Why Rajnath Singh may have stopped in Iran while in transit from Russia
ماسکو سے واپسی کے دوران راجناتھ سنگھ نے تہران کا دورہ کیوں کیا

قبل ازیں راجناتھ سنگھ نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)‘ آزاد ملکوں کی دولت مشترکہ (سی آئی ایس) اور سکیورٹی سے متعلق اجتماعی معاہدے کی تنظیم (سی ایس ٹی او) کے رُکن ممالک کے وزرائے دفاع کی ماسکو میں مشترکہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بھارت ہر قسم کی دہشت گردی اور اس کی اعانت کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔ اپنے خطاب کے بعد راجناتھ سنگھ نے ٹوئٹ کیا کہ ’افغانستان سمیت علاقائی سلامتی کے امور پر غور و خوص کیا گیا‘۔

ماسکو سے واپسی کے دوران راجناتھ سنگھ کا دورہ تہران طئے شدہ تھا یا اچانک تھا لیکن اس دورہ کو کافی اہمیت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

سب سے پہلے ایران اور چین کے مابین تعلقات میں غیرمعمولی گرمجوشی دیکھی جارہی ہے وہیں دوسری جانب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بعد لائن آف ایکچول کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کو بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا۔ ایران اور چین کے درمیان تعلقات میں بہتری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی پابندیوں کو چین نے نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین اپنے مفادات کے پیش نظر امریکہ کو نظرانداز کرکے ایران سے تیل خرید رہا ہے جس سے ایران کو کافی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ وہیں دوسری جانب بھارت، جو ایک وقت ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا، امریکی پابندیوں کے چلتے اب وہ ایران کا تیل نہیں خرید رہا ہے۔

شیعہ اکثریتی ملک ایران کے ساتھ بھارت کے صدیوں پرانے روایتی، ثقافتی، لسانی اور تہذیبی رشتے برقرار ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ دورہ تہران کے دوران راجناتھ سنگھ چاہ بہار بندرگاہ کے معاہدہ کو بازیافت کرنے کے امکان کا جائزہ لینا چاہتے ہو جس سے بھارت باہر ہوگیا تھا۔ قبل ازیں بھارت، ایران کی اسٹراٹیجک چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعہ ایک کوریڈور تعمیر کرنے کا خواہاں تھا جس سے افغانستان، وسطی ایشیا اور روس تک تجارتی رسائی ممکن ہوسکے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کے چلتے بھارت چاہ بہار کوریڈور کی تعمیر کا طئے شدہ اہداف مکمل کرنے سے قاصر ہے۔

ایران مسلم دنیا میں امریکہ مخالف گروپ کا حصہ ہے جس میں ترکی، قطر اور ملائشیا بھی شامل ہیں۔ او آئی سی سے ہٹ کر ایک اور گروپ جو امریکی حامی سعودی عرب کا مخالف ہے اور ممکن ہے کہ پاکستان بھی اس گروپ کا رکن بن جائے کیونکہ پاکستان کے خیال میں سعودی عرب، کشمیر کے سلسلہ میں اپنے موقف سے منحرف ہوگیا ہے۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں حالات معمول پر لانے کی کوششیں جاری ہیں اور راجناتھ سنگھ کے دورہ تہران سے اس میں مدد ملے گی کیونکہ وادی کے متعدد علاقوں میں شیعہ آبادی کی خاصی تعداد آباد ہے جبکہ بھارت مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں ایرانی حمایت کا خواہاں ہے۔

راجناتھ سنگھ نے اپنے دورہ ایران اور ایرانی وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’تہران میں امیر حاتمی سے میری ملاقات نتیجہ خیز اور مفید رہی‘ ہم نے افغانستان سمیت علاقائی سلامتی کے امور اور دوطرفہ تعاون سے متعلق دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا‘۔

قبل ازیں راجناتھ سنگھ نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)‘ آزاد ملکوں کی دولت مشترکہ (سی آئی ایس) اور سکیورٹی سے متعلق اجتماعی معاہدے کی تنظیم (سی ایس ٹی او) کے رُکن ممالک کے وزرائے دفاع کی ماسکو میں مشترکہ میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بھارت ہر قسم کی دہشت گردی اور اس کی اعانت کی واضح طور پر مذمت کرتا ہے۔ اپنے خطاب کے بعد راجناتھ سنگھ نے ٹوئٹ کیا کہ ’افغانستان سمیت علاقائی سلامتی کے امور پر غور و خوص کیا گیا‘۔

ماسکو سے واپسی کے دوران راجناتھ سنگھ کا دورہ تہران طئے شدہ تھا یا اچانک تھا لیکن اس دورہ کو کافی اہمیت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔

سب سے پہلے ایران اور چین کے مابین تعلقات میں غیرمعمولی گرمجوشی دیکھی جارہی ہے وہیں دوسری جانب بھارت اور چین کے درمیان سرحدی کشیدگی کے بعد لائن آف ایکچول کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کو بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا۔ ایران اور چین کے درمیان تعلقات میں بہتری کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امریکی پابندیوں کو چین نے نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین اپنے مفادات کے پیش نظر امریکہ کو نظرانداز کرکے ایران سے تیل خرید رہا ہے جس سے ایران کو کافی فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔ وہیں دوسری جانب بھارت، جو ایک وقت ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار تھا، امریکی پابندیوں کے چلتے اب وہ ایران کا تیل نہیں خرید رہا ہے۔

شیعہ اکثریتی ملک ایران کے ساتھ بھارت کے صدیوں پرانے روایتی، ثقافتی، لسانی اور تہذیبی رشتے برقرار ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ دورہ تہران کے دوران راجناتھ سنگھ چاہ بہار بندرگاہ کے معاہدہ کو بازیافت کرنے کے امکان کا جائزہ لینا چاہتے ہو جس سے بھارت باہر ہوگیا تھا۔ قبل ازیں بھارت، ایران کی اسٹراٹیجک چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعہ ایک کوریڈور تعمیر کرنے کا خواہاں تھا جس سے افغانستان، وسطی ایشیا اور روس تک تجارتی رسائی ممکن ہوسکے۔ ایران پر امریکی پابندیوں کے چلتے بھارت چاہ بہار کوریڈور کی تعمیر کا طئے شدہ اہداف مکمل کرنے سے قاصر ہے۔

ایران مسلم دنیا میں امریکہ مخالف گروپ کا حصہ ہے جس میں ترکی، قطر اور ملائشیا بھی شامل ہیں۔ او آئی سی سے ہٹ کر ایک اور گروپ جو امریکی حامی سعودی عرب کا مخالف ہے اور ممکن ہے کہ پاکستان بھی اس گروپ کا رکن بن جائے کیونکہ پاکستان کے خیال میں سعودی عرب، کشمیر کے سلسلہ میں اپنے موقف سے منحرف ہوگیا ہے۔

آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد کشمیر میں حالات معمول پر لانے کی کوششیں جاری ہیں اور راجناتھ سنگھ کے دورہ تہران سے اس میں مدد ملے گی کیونکہ وادی کے متعدد علاقوں میں شیعہ آبادی کی خاصی تعداد آباد ہے جبکہ بھارت مسئلہ کشمیر کے معاملہ میں ایرانی حمایت کا خواہاں ہے۔

راجناتھ سنگھ نے اپنے دورہ ایران اور ایرانی وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ’تہران میں امیر حاتمی سے میری ملاقات نتیجہ خیز اور مفید رہی‘ ہم نے افغانستان سمیت علاقائی سلامتی کے امور اور دوطرفہ تعاون سے متعلق دیگر معاملات پر تبادلہ خیال کیا‘۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.