دنیا کا ایک ایسا ملک جو بہت چھوٹا اور مٹھی بھر اس کی آبادی لیکن آج پوری دنیا اس کے اشاروں پر ناچتی ہے۔ جی ہاں اس ملک کا نام اسرائیل ہے۔ آج ہم بات کریں گے اسی ملک اور اس سے وابستہ کچھ دلچسپ حقائق کے بارے میں۔
در اصل اسرائیل مشرقی وسطی کا ایک یہودی ملک ہے، جو بحیرہ روم کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع ہونے کے ساتھ لبنان، شام، اردن، فلسطین اور مصر جیسے مسلم ممالک کے درمیان گھرا ہوا ہے۔
فی الحال اسرائیل میں اشکنازی، مزراخی، سفاردی، یمنی، ایتھوپیائی اور بحرینی یہودی نسل کے علاوہ فلسطینی مسلمان، بدو، دُرُوز اور دیگر بے شمار گروہ موجود ہیں۔
اسرائیل اور فلسطین ہمیشہ سرخیوں میں کیوں بنے رہتے ہیں؟
سنہ 1948 میں اسرائیل نام کا ایک ملک وجود میں آیا تھا۔ اس کے بعد سے ہی اس علاقے میں مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل کے قیام کے محض ایک روز بعد ہی 15 مئی سنہ 1948 کو پہلی بار اسرائیل پر 4 عرب ممالک مصر، عراق، شام اور اردن نے حملہ کر دیا۔ سنہ 1967 میں مصر، اردن، لبنان اور شام نے اسرائیل پر دوبارہ حملہ کیا۔
اسی طرح 6 اکتوبر سنہ 1973 میں بھی مصر اور شام کی افواج نے یہودی تہوار 'یوم کِپُر' کے موقع پر اسرائیل پر تیسری بار حملہ کیا، لیکن ان تینوں حملوں میں اسرائیل نے اپنے حریفوں کو نہ صرف شکست دی، بلکہ 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے غزہ پٹی، ویسٹ بینک، جزیرہ نما سینائی اور گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا۔
ان سب کے بعد مصر کو احساس ہوا کہ انہیں اسرائیل سے دشمنی ختم کر دینی چاہیے۔ آخرکار سنہ 1978 میں مصر کے صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم میناکم بیگن نے امریکی صدر جمی کارٹر کی ثالثی میں دونوں ممالک کے درمیان امن کے لیے ایک معاہدہ کیا، جسے 'کیمپ ڈیوِڈ اِکارڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس معاہدے میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے مقبوضہ علاقوں سے دستبرداری کی بھی بات کہی۔ اسی اقدام کے پیش نظر دونوں رہنماوں، انور سادات اور میناکم بیگن کو مشترکہ طور پر امن کے لیے 'نوبل انعام' سے نوازا گیا۔
یہ پہلا ایسا موقع تھا، جب کسی عرب ملک نے اسرائیل کو ایک ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا، اور یہ بات دیگر عرب ممالک، خصوصا فلسطینیوں کو کسی بھی قیمت پر تسلیم نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ اس معاہدے کے 3 برس بعد انور سادات کو قتل کر دیا گیا۔
فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے سنہ 1964 میں 'پی ایل او' نامی ایک تنظیم کی بنیاد ڈالی، اور سنہ 1967 کی شکست کے بعد یاسر عرفات نے دیگر عرب ممالک پر انحصار کیے بغیر فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے تشدد کے سہارے کوششیں شروع کر دی۔ اسی تشدد کی وجہ سے پی ایل او کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دے دیا گیا۔
یاسر عرفات کو سنہ 1978 میں 'کیمپ ڈیوڈ اکارڈ' سے سخت مایوسی ہوئی، کیوں کہ اس معاہدے میں انور سادات نے فلسطینی ریاست کے قیام سے متعلق کوئی بات نہیں کی تھی۔ حالانکہ اس سے قبل مصر کا کہنا تھا کہ اسرائیل پر حملوں کا مقصد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔
سنہ 1980 کے بعد جب یاسر عرفات کو احساس ہوا کہ تشدد سے فلسطینی ریاست کا قیام ممکن نہیں ہے، تو انہوں نے تشدد کا راستہ چھوڑ کر سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
اسی دوران سنہ 1987 میں فلسطین کی سب سے بڑی اسلامی مزاحمتی تحریک 'حماس' کی بنیاد شیخ احمد یاسین نے رکھی۔ اس کا بنیادی مقصد غزہ اور مغربی اردن میں اسرائیلی قبضے کے خلاف کوشش اور اسرائیلی فوج کو فلسطین کی سرزمین سے باہر کرنا تھا۔
اسی مقصد کے تحت 'انتفادہ' نامی ایک مزاحمتی مہم کی شروعات کی گئی، جو تقریبا 6 برسوں تک جاری رہی۔
بالآخر سنہ 1993 میں امریکی صدر بل کلنٹن کی ثالثی میں یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جسے ' اوسلو اکارڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کا مقصد ویسٹ بینک اور غزہ پٹی کے علاقوں کو بنیاد بنا کر فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ اس معاہدے کے 2 برس بعد اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق رابین کو ایک یہودی نے ہلاک کر دیا۔
اُدھر فلسطینیوں کو محسوس ہونے لگا کہ یاسر عرفات نے پورے ملک کا مطالبہ نہ کر کے محض ایک چھوٹے سے حصے پر قناعت کر لی ہے۔ اور اگر اس پر بھی عمل نہ ہو سکا تو فلسطینی عوام کی زبردست شکست ہو گی۔
بعد ازاں 'اوسلو اکارڈ' کے نفاذ کی متعدد کوششیں ہوئیں، اور اسرائیل کے ساتھ فلسطین کو بھی ایک ملک کے طور پر تسلیم کیے جانے یعنی 'ٹو نیشن تھیوری' کی کوششیں شروع ہوئیں، لیکن سبھی کوششیں ناکام رہیں۔
آخر کار سنہ 2000 میں امریکہ، اسرائیل اور پی ایل او نے مشترکہ طور پر اس بات کو قبول کر لیا کہ 'اوسلو اکارڈ' ناکام ہو گیا ہے۔
اس اعلان کے بعد ہی فلسطین کے کالجز اور یونیورسٹیز کے طلباء نے ایک بارہ پھر 'انتفادہ' کی شروعات کی۔ اس مہم کے تحت طلبا نے تقریبا ساڑھے چار برس تک تشدد اور پتھر بازی کے سہارے اسرائیل پر دباو بنانے کی کوشش کی، تاکہ اسرائیل، فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر قبول کرے، لیکن یہ کوشش بھی ناکام رہی، اور اس کوشش کے نتیجے میں بیشمار فلسطینی نوجوان اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
اسی دوران حماس نے سنہ 2004 میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی متازع موت کے بعد سیاست میں قدم رکھنے کا فیصلہ کیا اور حکومت کی تشکیل کی حد تک نششتیں بھی حاصل کر لیں، لیکن سنہ 2006 میں پی ایل او کی اتحادی سیاسی جماعت 'الفتح' اور حماس کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے، اور فلسطین کے موجودہ وزیر اعظم محمود عباس نے سنہ 2007 میں حماس کے جمہوری حکومت کو توڑ کر اپنی کابینہ اور وزیراعظم کا اعلان کر دیا۔
دونوں کے درمیان اختلاف کے ازالے کے لیے متعدد کوششیں ہوئیں، لیکن ناکام رہیں،اور اس خانہ جنگی کے نتیجے میں فلسطیینیوں کے دو دھڑے بن گئے۔
تاہم حماس کی سیاسی اکائی سیاست میں حصہ لیتی رہی، اور جنگی اکائی مسلسل تشدد کے سہارے فلسطینی ریاست کے قیام کی کوششیں کرتی رہی۔
سنہ 2012 میں پہلی بار فلسطینی وزیر اعظم محمود عباس نے اقوام متحدہ میں فلسطین کو آزاد ریاست کا درجہ دلانے میں کامیابی حاصل کی۔ اس طرح فلسطین دنیا کی واحد ایسی ریاست ہے، جس کے پاس نہ سرحد ہے اور نہ ہی زمین، لیکن اس کے باوجود اسے ایک ریاست کا درجہ حاصل ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے کہا گیا تھا کہ 78 فیصد حصے پر فلسطین کی ریاست کا قیام ہو گا، لیکن اسرائیل کے مسلسل قبضے کے نتیجے میں چند علاقوں کے سوا فی الحال فلسطین کے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔
سنہ 2000 کے بعد سے اب تک حماس کے عسکریت پسند تشدد کے سہارے اپنی سر زمین اور مسجد اقصی کی حفاظت کی کوشش کرتے رہے ہیں، لیکن رفتہ رفتہ یاسر عرفات کی طرح حماس کو بھی احساس ہونے لگا ہے کہ انہیں تشدد کا راستہ چھوڑ کر پُر امن طریقے سے اپنے مقاصد کی تکمیل کرنی چاہیے۔
تاہم سنہ 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پشت پناہی کے سبب اسرائیل نے تل ابیب سے اپنا دارالحکومت مشرقی یروشلم منتقل کر کے حالات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، حالانکہ اسرائیل کے اس قدم کو اب تک بین الاقوامی سطح پر منظوری نہیں دی گئی ہے۔
ایسے میں دیکھنے والی بات ہو گی کہ حماس کب امن کے راستے کو اختیار کر کے اپنے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں شروع کرتا ہے۔
حالیہ برسوں میں کچھ یہودی مذہبی جماعتوں اور اسرائیلی سیاستدانوں نے یہودیوں کو مسلمانوں کے مقدس مقامات پر عبادت کی اجازت دینے کی درخواستیں تیز کر دی ہیں۔
سابق فلسطینی مفتی عکرمہ صبری کا کہنا ہے کہ اسرائیلی انتخابات میں مسجد اقصی پر کافی زور دینا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسجد اقصی پر قبضہ یہودیوں کے لیے وننگ کارڈ ہے۔
خیال رہے کہ پہاڑی پر واقع اسلامی مقامات کے انتظامات کی ذمہ داری اردن کے ایک اسلامی ٹرسٹ 'اسٹیٹس کو'کے ذمے ہے۔ اور فلسطینیوں کو خدشہ ہے کہ ٹرسٹ کی کسی غلطی کے سبب اسرائیل کو ان مقدس مقامات پر قبضہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔
فلسطین میں مقدس مقامات کے تحفظ کی فکر کرنے والا اسلامی ادارہ ' یروشلم اسلامک وقف' مسجد اقصی اور حرم الشریف کے احاطے میں یہودیوں کو عبادت کرنے سے منع کرتا ہے۔
تاہم چند روز قبل اسرائیلی وزیر زازی ہینگبی نے ایک ویڈیو اپلوڈ کر کے مسجد اقصی اور حرم الشریف پر اشارتا قبضے کی بات کہی تھی۔
غور طلب ہے کہ فلسطین کے شہر یروشلم کو دنیا کے تین بڑے مذاہب، اسلام، یہودیت اور نصرانیت کے مقدس مقامات کے طور جانا جاتا ہے۔
یہاں یہودیوں کے لیے 'ہیکل سلیمانی' کی آخری نشانی 'دیوار گریہ' نصرانیوں کا سب سے مقدس چرچ 'ہولی سَپَلکر' اور مسلمانوں کا حرمین شریفین کے بعد سب سے مقدس مقام قبلہ اول 'مسجد اقصی اور حرم الشریف' کی موجودگی ہے۔
ان مقدس مقامات کی وجہ سے یہ علاقہ پوری دنیا کے لیے توجہ کا مرکز ہے۔ خیال رہے کہ ٹیمپل ماونٹ مشرقی یروشلم میں واقع ہے، اور سنہ 1967 کی جنگ کے دوران اسرئیل نے مشرقی یروشلم اور گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم اس حصے پر اسرائیلی خود مختاری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔ اور سنہ 1956 کی جنگ میں اسرائیل نے مصر کے ریگستان سنائی پر بھی قبضہ کر لیا تھا، لیکن بعد میں امریکی دباو کے سبب سنائی کو واپس دینا پڑ گیا تھا۔
فی الحال بین الاقوامی سطح پر عدم منظوری کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سنہ 2019 میں 'گولان کی پہاڑیوں' پر اسرائیل کی خود مختاری کو تسلیم کر لیا ہے۔
اب جب کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو بد عنوانی کے الزامات سے گھرے ہوئے ہیں، ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اگلا صدر منتخب ہونا آسان نظر نہیں آتا، تو ایسے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر نتین یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کو اقتدار سے برطرف کیا گیا تو فلسطین اور اسرائیل کے حالات یقینا مختلف ہوں گے اور فلسطینی قیادت کے لیے راحت کی بات ہو گی۔