پاکستان میں ہلاکت خیز کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے باجماعت نمازوں پر پابندی کی بعض آئمہ کی مخالفت نے ملک میں تشویش کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔
پاکستان میں جہاں ابتک دو اموات کیساتھ 335 کیس سامنے آچکے ہیں طبی ماہرین، سول سوسائٹی اور سیاست دانوں نے 25 سے زیادہ ایسے اماموں کی طرف سے جمعہ کی با جماعت نماز پر ممکنہ پابندی کو مسترد کرنے پر سخت تشویش ظاہر کی ہے۔
اس صورتحال سے پریشان لوگوں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مسئلے کی سنگینی کے تعلق سے اگر حکومت پاکستان مساجد کے آئمہ کو قائل کرنے میں ناکام رہی تو ملک کو ایک بہت بڑے طبی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔
آن لائن ڈی ڈبلیو کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد کے تقریبا دو درجن مذہبی رہنماؤں نے کل ایک مشترکہ بیان میں اعلان کیاتھا کہ وہ مساجد میں جمعے اور دوسری باجماعت نمازوں کا سلسلہ کسی طور بھی بند نہیں کریں گے۔
ان رہنماوں کی تجویز یہ ہے کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے مساجد کو آباد کیا جائے اور حفاظتی اقدامات و استفغار کے ساتھ اللہ سےرجوع کیا جائے۔
واضح رہے کہ پاکستانی میں کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے ۔گزشتہ چند دنوں میں اس میں اور بھی شدت آئی ہے۔ مجموعی طور پر اس وباء سے متاثرین کی تعداد 335ہو گئی ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق سات سو سے زیادہ زائرین ایران سے آئے ہیں جن میں سے اکثریت ممکنہ طور پر اس وائرس کا شکار ہو سکتی ہے۔
اجتماعات اس وائرس کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب بن رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے تو اپنی سرگرمیوں کو محدود کر دیا ہے لیکن بعض مذہبی طبقے ایسی کسی پابندی کے حق میں نظر نہیں آتے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے ایک سابق سربراہ کا کہنا ہے کہ کورونا سے تحفظ کے لئے اجتماعات سے گریز کی مخالفت کی علماء کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ حکومت کو اس کے لیے ہر ممکن اقدام اٹھانا چاہیے اور نماز جمعہ، تبلیغی اجتماعات اور دیگر ایسی تقریبات پر پابندی لگانی چاہیے، جن میں لوگ بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔
سعودی عرب سمیت کچھ مسلم ملکوں میں پہلے سے ہی اجتماعی طور پر نماز جمعہ ادا کرنے پر پابندی لگا دی جا چکی ہے۔بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ حکومت کو مختلف معاملات پر بلیک میل کرنے والاپاکستان کا مذہبی طقبہ حالات کے اس سنگین موڑ پر بھی یہی سب کچھ کر رہا ہے۔
ڈاکٹر عبید عثمانی کے حوالے سے ڈان نے خبر دی ہے کہ اگر حکومت بلیک میلنگ کا شکار ہوئی اور نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی نہیں لگائی تو وائرس کے کیسز سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں اور ممکنہ طور پر لاکھوں میں ہوں گے کیونکہ ملک میں لاکھوں کی تعداد میں مساجد ہیں۔