اسلام آباد: پاکستان کے دارالحکومت میں ہزاروں افراد جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ عمران خان اگست 2023 سے سنگین الزامات کے تحت سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ خان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ الزامات سیاسی طور پر محرک ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد میں پر امن احتجاج کی کال کے بعد حکام نے شہر کو سیل کرنے کے لیے ہزاروں سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے تھے۔ فون سروس معطل کر دی گئی تھی۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا اور شرپسندوں کو دیکھتے ہی گولیاں چلانے کی دھمکی بھی دی گئی۔
پولیس نے اسلام آباد میں شرپسند مظاہرین کے خلاف گرینڈ آپریشن کے دوران تقریباً چار سو افراد کو گرفتار کرلیا۔ پولیس کے ترجمان کے مطابق راولپنڈی پولیس نے 26 نمبرچونگی سےملحقہ علاقے میں گرینڈآپریشن کیا، اس آپریشن کےدوران عمران خان کے 400 سے زائد حامیوں کو جبکہ پنجاب بھرمیں آٹھ سو کےقریب شرپسندوں کوگرفتارکیا گیا۔
پولیس نے ملزمان سے بڑی تعداد میں اسلحہ، وائرلیس، غلیلیں اور بال بیرنگ بھی برآمد کئے ہیں۔
مظاہرین اور سیکیورٹی اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کو دیکھتے ہوئے ترجمان پی ٹی آئی نے تحریک انصاف کے پرامن احتجاج کے منسوخی کا اعلان کر دیا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ بانی پاکستان تحریک انصاف پارٹی عمران خان کی ہدایت کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
پی ٹی آئی کے ترجمان نے حکومت اور سیکیورٹی فورسز پر اسلام آباد میں پرامن مظاہرین کےخلاف بربریت کامظاہرہ کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آٹھ کارکنوں کو سیدھی گولیاں ماری گئیں۔ انھوں نے کارکنان کے قتل اور آپریشن کی مذمت کی۔
دوسری جانب، اسلام آباد میں پولیس آپریشن کے دوران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور بشریٰ بی بی گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہوگئے جس کے ساتھ کارکن بھی بھاگ نکلے۔
پاکستان اور اس کے دارالحکومت میں بغاوت اور تشدد کوئی نئی بات نہیں ہے۔ لیکن عمران خان کی حمایت میں نکالی گئیں پچھلی دو ریلیوں میں حکومت کی طرف سے سخت ردعمل اور خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے اور بھی مضبوط پش بیک دیکھا گیا ہے۔
حکومت خان کی بے پناہ مقبولیت اور حکومت کو لاحق خطرے کی وجہ سے ان کی رہائی کے مطالبات ماننے سے انکار کرتی آئی ہے۔
دوسری جانب، عمران خان کے حامیوں نے عہد کیا ہے کہ انھیں جیل سے نکالنے اور اقتدار میں واپس لانے کے لیے جو کچھ کرنا پڑے گا وہ کریں گے، چاہے اس کے لیے انھیں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنا ہی کیوں نہ پڑ جائے۔
یہ بھی پڑھیں: