ETV Bharat / international

چینی دراندازی کی وجوہات تشویشناک!

author img

By

Published : May 31, 2020, 1:56 PM IST

بھارت کو فوجی، سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں سے بہتر کی اُمید تو ہے لیکن اس کے لیے چلینج درپیش ہے۔

The timing, level and reasons for the Chinese infiltration are worrisome!
چینی دراندازی کا وقت، سطح اور وجوہات تشویشناک ہیں!

بھارت اور چین کے درمیان حقیقی حدِ متارکہ پر جاری سرحدی تعطل اب چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی موصولہ اطلاعات کے مطابق چین نے 4000 فوجی اور بھاری ہتھیار آگے کئے ہوئے ہیں۔

غیر معمولی طور پر دونوں ممالک کی افواج میں ہاتھا پائی کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں کئی بھارتی اور چینی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ چینی فوج کی جانب سے اچھے اور مربوط طریقے سے ہورہے یہ حملے بیجنگ میں اعلیٰ سطحی فیصلے کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے ہیں۔

ووہان اور مہابلی پورم کے غیر رسمی سربراہی اجلاسوں میں حاصل کردہ دوطرفہ مفاہمت کا کیا ہوا؟ یہ سب ابھی کیوں ہو رہا ہے؟ ان سب کا ترتیب سے ایک پسِ منظر ہے!

چین کو فی الوقت جس تنقید اور جن حالات کا سامنا ہے وہ اس کا عادی نہیں ہے، ابھی اس کی پستی کا سب سے بدترین دور ہے۔ اسے 1918-20 میں پھیلے اسپینی زُکام (اسپینش فلو) کے بعد پوری انسانیت کو درپیش آئی مہلک ترین وبا (کووِڈ-19) کی جائے پیدائش کے بطور دیکھا جارہا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار اور صنعتیں اسکی سرحدوں کو چھوڑ رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بیجنگ کو غنڈہ گرد اور دیگر ممالک کو شاطرانہ طریقے پر مسلنے والے ملک کی پہچان کو عالمی سطح پر تقویت ملی ہے۔

وِٹو کا اختیار رکھنے والے بیجنگ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو کورونا وائرس کی پھیلائی ہوئی تباہی کو زیرِ بحث لانے سے روکا لیکن اسے یوروپی یونین کے 18-19 مئی کو عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کو پیش کردہ اور 120 ممالک کی حمایت یافتہ مسودہ قانون کو کسی حد تک سہنا پڑا۔

چینی صدر شی جِنپِنگ کے سامنے ایک کانفرنس سے اپنی تقریر میں تعاون کا مبہم سا وعدہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے وہی کیا کہ جس کے لئے چین کو جانا جاتا ہے; کسی بھی مسئلہ کو دبانے کیلئے پیسہ پھینکو، افریقہ میں صحت کی دیکھ بال کی سہولیات کھڑا کرنے کیلئے دو بلین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کرکے اس نے ایسا ہی کیا۔

عالمی قیادت حاصل کرنے کیلئے چین امریکہ کے ساتھ ایک پُرتناؤ مقابلہ جاتی دوڑ میں ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہائی ٹیک علیٰحدگی رفتار پکڑنے لگی ہے جبکہ بقیہ دنیا کے ساتھ اقتصادی علیٰحدگی شروع ہوچکی ہے۔ چین میں عوامی ذہن بگڑا ہوا ہے، چینی قیادت دباؤ میں ہے اور امریکی کانگریس اس سے زیادہ نہیں تو کم از کم دو ایک ٹرلین ڈالروں کے معاوضہ کا مطالبہ کرنے کیلئے کہہ رہی ہے۔ اس سب پر (چین کے) وزیرِ خارجہ وانگ یی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے امریکہ میں ایک سیاسی وائرس پھیل رہا ہے جو 'چین پر حملہ کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑنا چاہتا'۔

ایسی صورتحال میں کوئی بھی ملک ترجیحی طور پر ایک 'لو پروفائل' بناکر عالمی برادری کے ساتھ معاملات درست کرنا چاہے گا لیکن چین نہیں! انہوں نے تو بحیرہ جنوبی چین میں جارحانہ انداز کی تجدید کرتے ہوئے اختلافِ رائے کو ختم کرنے کیلئے ایک نیا سکیورٹی قانون بناکر تائیوان کو دھمکانے اور ہانگ کانگ کی خودمختاری کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ 'زمینی حقائق' سے پتہ چلتا ہے کہ ہانگ کانگ اب خود مختار نہیں رہا ہے جس سے ممکنہ پابندیوں کا راستہ بن گیا ہے۔

سرحد پر جاری تعطل کی جانب آجائیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ چین کے ساتھ سرحدوں کی حد بندی نہیں کی گئی ہے اور یہاں سالانہ دراندازی کے 400-500 واقعات پیش آتے ہیں لیکن انہیں فوری طور پر حل کردیا جاتا ہے۔

البتہ عرصہ ہوا کہ بھارت-چین سرحد پر دراندازی اور چپقلش کے واقعات اور تعطل کی صورتحال بڑھنے لگی ہے۔ 2017 میں ڈوکلام کے پاس دونوں ممالک کے بیچ پیدا شدہ صورتحال کو قابو کرنے میں 72 دن لگے تھے۔ فی الوقت کی صورتحال کے حوالے سے فرق وقت (ٹائمنگ)، تعطل کی سطح (اسکیل)، فوجی جماؤ (ملٹری بیلڈ اپ) اور رغبت (موٹیویشن) کا ہے۔ فی الوقت چار مقامات،گلوان وادی کے آس پاس تین جگہوں اور لداخ میں پنگانگ جھیل کے قریب ایک جگہ، پر تعطل ہے۔

چین کا بھارت کے ساتھ تنازعہ کھڑا کرکے اس کے لئے چلینج کھڑا کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ صدر شی جِنپِنگ کورونا (وائرس) بحران کی وجہ سے متاثرہ اپنی شبیہ کو بحال کرکے خود کو ایک مضبوط لیڈر کے بطور پیش کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ بیجنگ چین کی مرکزیت والی دنیا چاہتا ہے جس میں بھارت کو ایک رُکاوٹ کے بطور دیکھا جارہا ہے۔ تیسری بات یہ کہ چین یہ سمجھتا ہے کہ بھارت ابھی کورونا (وائرس) کے بحران میں لپٹا ہوا ہے اور چوتھی وجہ یہ کہ چین یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اسے عالمی سطح کی تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ پانچویں وجہ یہ کہ چین یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس کے بر خلاف موقف اپنانے کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں اور چھٹی وجہ یہ کہ چین بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کے عزم کو بھی آزمانا چاہتا ہے۔

ایسے میں یہ بات ظاہر ہے کہ صدر شی جِنپِنگ نے بھاری خطرات اُٹھا کر اعلیٰ داؤ لگایا ہوا ہے۔ چینی زبان کے ذرائع ابلاغ سرکاری موقف کو اُجاگر کرتے ہوئے بھارت کو ایک جارح کے بطور پیش کررہے ہیں۔ 26 مئی کو پیوپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی پلینری کے دوران شی جِنپِنگ نے کسی ملک کا نام لئے بغیر پی ایل اے کو 'جنگی تیاریاں تیز' کرنے کیلئے کہا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اپنی پینترے بازی کی گنجائش تنگ کردی ہے۔

دونوں ممالک کو خوش قسمتی سے دو طرفہ فوجی، سفارتی اور سیاسی طریقے دستیاب ہیں جو پہلے ہی سرگرم ہیں۔ اُمید ہے کہ دونوں ممالک کے بیچ جاری تعطل جلد ہی ختم اور معاملات پُرامن طریقے پر حل ہوجائیں گے لیکن اس بات سے انکار یا اس حقیقت کو چھُپایا نہیں جاسکتا ہے کہ بھارت کو ایک بڑا چلینج درپیش ہے۔

بھارت اور چین کے درمیان حقیقی حدِ متارکہ پر جاری سرحدی تعطل اب چوتھے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی موصولہ اطلاعات کے مطابق چین نے 4000 فوجی اور بھاری ہتھیار آگے کئے ہوئے ہیں۔

غیر معمولی طور پر دونوں ممالک کی افواج میں ہاتھا پائی کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں کئی بھارتی اور چینی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ چینی فوج کی جانب سے اچھے اور مربوط طریقے سے ہورہے یہ حملے بیجنگ میں اعلیٰ سطحی فیصلے کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتے ہیں۔

ووہان اور مہابلی پورم کے غیر رسمی سربراہی اجلاسوں میں حاصل کردہ دوطرفہ مفاہمت کا کیا ہوا؟ یہ سب ابھی کیوں ہو رہا ہے؟ ان سب کا ترتیب سے ایک پسِ منظر ہے!

چین کو فی الوقت جس تنقید اور جن حالات کا سامنا ہے وہ اس کا عادی نہیں ہے، ابھی اس کی پستی کا سب سے بدترین دور ہے۔ اسے 1918-20 میں پھیلے اسپینی زُکام (اسپینش فلو) کے بعد پوری انسانیت کو درپیش آئی مہلک ترین وبا (کووِڈ-19) کی جائے پیدائش کے بطور دیکھا جارہا ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار اور صنعتیں اسکی سرحدوں کو چھوڑ رہی ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بیجنگ کو غنڈہ گرد اور دیگر ممالک کو شاطرانہ طریقے پر مسلنے والے ملک کی پہچان کو عالمی سطح پر تقویت ملی ہے۔

وِٹو کا اختیار رکھنے والے بیجنگ نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو کورونا وائرس کی پھیلائی ہوئی تباہی کو زیرِ بحث لانے سے روکا لیکن اسے یوروپی یونین کے 18-19 مئی کو عالمی صحت تنظیم (ڈبلیو ایچ او) کو پیش کردہ اور 120 ممالک کی حمایت یافتہ مسودہ قانون کو کسی حد تک سہنا پڑا۔

چینی صدر شی جِنپِنگ کے سامنے ایک کانفرنس سے اپنی تقریر میں تعاون کا مبہم سا وعدہ کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ انہوں نے وہی کیا کہ جس کے لئے چین کو جانا جاتا ہے; کسی بھی مسئلہ کو دبانے کیلئے پیسہ پھینکو، افریقہ میں صحت کی دیکھ بال کی سہولیات کھڑا کرنے کیلئے دو بلین ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کرکے اس نے ایسا ہی کیا۔

عالمی قیادت حاصل کرنے کیلئے چین امریکہ کے ساتھ ایک پُرتناؤ مقابلہ جاتی دوڑ میں ہے۔ امریکہ کے ساتھ ہائی ٹیک علیٰحدگی رفتار پکڑنے لگی ہے جبکہ بقیہ دنیا کے ساتھ اقتصادی علیٰحدگی شروع ہوچکی ہے۔ چین میں عوامی ذہن بگڑا ہوا ہے، چینی قیادت دباؤ میں ہے اور امریکی کانگریس اس سے زیادہ نہیں تو کم از کم دو ایک ٹرلین ڈالروں کے معاوضہ کا مطالبہ کرنے کیلئے کہہ رہی ہے۔ اس سب پر (چین کے) وزیرِ خارجہ وانگ یی نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے امریکہ میں ایک سیاسی وائرس پھیل رہا ہے جو 'چین پر حملہ کرنے اور اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقعہ نہیں چھوڑنا چاہتا'۔

ایسی صورتحال میں کوئی بھی ملک ترجیحی طور پر ایک 'لو پروفائل' بناکر عالمی برادری کے ساتھ معاملات درست کرنا چاہے گا لیکن چین نہیں! انہوں نے تو بحیرہ جنوبی چین میں جارحانہ انداز کی تجدید کرتے ہوئے اختلافِ رائے کو ختم کرنے کیلئے ایک نیا سکیورٹی قانون بناکر تائیوان کو دھمکانے اور ہانگ کانگ کی خودمختاری کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ 'زمینی حقائق' سے پتہ چلتا ہے کہ ہانگ کانگ اب خود مختار نہیں رہا ہے جس سے ممکنہ پابندیوں کا راستہ بن گیا ہے۔

سرحد پر جاری تعطل کی جانب آجائیں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ چین کے ساتھ سرحدوں کی حد بندی نہیں کی گئی ہے اور یہاں سالانہ دراندازی کے 400-500 واقعات پیش آتے ہیں لیکن انہیں فوری طور پر حل کردیا جاتا ہے۔

البتہ عرصہ ہوا کہ بھارت-چین سرحد پر دراندازی اور چپقلش کے واقعات اور تعطل کی صورتحال بڑھنے لگی ہے۔ 2017 میں ڈوکلام کے پاس دونوں ممالک کے بیچ پیدا شدہ صورتحال کو قابو کرنے میں 72 دن لگے تھے۔ فی الوقت کی صورتحال کے حوالے سے فرق وقت (ٹائمنگ)، تعطل کی سطح (اسکیل)، فوجی جماؤ (ملٹری بیلڈ اپ) اور رغبت (موٹیویشن) کا ہے۔ فی الوقت چار مقامات،گلوان وادی کے آس پاس تین جگہوں اور لداخ میں پنگانگ جھیل کے قریب ایک جگہ، پر تعطل ہے۔

چین کا بھارت کے ساتھ تنازعہ کھڑا کرکے اس کے لئے چلینج کھڑا کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ صدر شی جِنپِنگ کورونا (وائرس) بحران کی وجہ سے متاثرہ اپنی شبیہ کو بحال کرکے خود کو ایک مضبوط لیڈر کے بطور پیش کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری وجہ یہ کہ بیجنگ چین کی مرکزیت والی دنیا چاہتا ہے جس میں بھارت کو ایک رُکاوٹ کے بطور دیکھا جارہا ہے۔ تیسری بات یہ کہ چین یہ سمجھتا ہے کہ بھارت ابھی کورونا (وائرس) کے بحران میں لپٹا ہوا ہے اور چوتھی وجہ یہ کہ چین یہ دکھانا چاہتا ہے کہ اسے عالمی سطح کی تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ پانچویں وجہ یہ کہ چین یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس کے بر خلاف موقف اپنانے کے سنگین نتائج ہوسکتے ہیں اور چھٹی وجہ یہ کہ چین بھارت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کے عزم کو بھی آزمانا چاہتا ہے۔

ایسے میں یہ بات ظاہر ہے کہ صدر شی جِنپِنگ نے بھاری خطرات اُٹھا کر اعلیٰ داؤ لگایا ہوا ہے۔ چینی زبان کے ذرائع ابلاغ سرکاری موقف کو اُجاگر کرتے ہوئے بھارت کو ایک جارح کے بطور پیش کررہے ہیں۔ 26 مئی کو پیوپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کی پلینری کے دوران شی جِنپِنگ نے کسی ملک کا نام لئے بغیر پی ایل اے کو 'جنگی تیاریاں تیز' کرنے کیلئے کہا۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے اپنی پینترے بازی کی گنجائش تنگ کردی ہے۔

دونوں ممالک کو خوش قسمتی سے دو طرفہ فوجی، سفارتی اور سیاسی طریقے دستیاب ہیں جو پہلے ہی سرگرم ہیں۔ اُمید ہے کہ دونوں ممالک کے بیچ جاری تعطل جلد ہی ختم اور معاملات پُرامن طریقے پر حل ہوجائیں گے لیکن اس بات سے انکار یا اس حقیقت کو چھُپایا نہیں جاسکتا ہے کہ بھارت کو ایک بڑا چلینج درپیش ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.