جنوبی کوریا، تائیوان اور چین آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت)، سمارٹ فونز اور بروقت ڈیٹا جمع کرپانے کی مدد سے کووِڈ 19 (کورونا وائرس) کو قابو کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ باقی دنیا ان تین ممالک سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ حالانکہ جنوبی کوریا میں سب سے زیادہ متاثرین کی تعداد کے حوالے سے دوسرے نمبر پر رہا۔ تاہم یہاں مرنے والوں کی تعداد کم رہی ہے۔ جبکہ تائیوان میں اس سے بھی کم ہلاکتیں ہوئیں جو چین کا پڑوسی ہے۔
جنوبی کوریا کی سرکار ”بِگ ڈیٹا“ کا استعمال کرتے ہوئے مریضوں کی تعداد، ان کے رہائشی علاقوں، ان کی جنس اور عمر، ہلاکتوں کی تعداد اور تمام طرح کی تفصیلات جمع کر کے انہیں خفیہ رکھ رہی ہے اور متاثرین کو ایک منفرد شناختی نمبر فراہم کر رہی ہے۔ جنوبی کوریا کے ایک کورونا بلیٹن کی مثال یوں ہے:مریض نمبر102 اور اس کے دوست نے ایک مخصوص سنیما کی سیٹ نمبر کے ون اور کے ٹو میں ایک مووی (فلم) دیکھی، وہ فلاں ٹیکسی میں بیٹھ کر سنیما پہنچے تھے۔ مریض نمبر 151 نے فلاں ریستوران میں کھانا کھایا۔ مریض نمبر 587 ایک لوکل ٹرین میں بیٹھ کر پارٹی میں شرکت کیلئے گیا جہاں وہ 20 لوگوں سے ملا۔
جنوبی کوریا میں سرکار کی جانب سے مہیا کرائی جانے والی اطلاعات پر مبنی ایک ویب سائٹ ہے جو لوگوں کو کورونا متاثرین کے سفر کی تفصیلات بتاتی ہے اور یوں لوگ اس علاقے میں جانے سے پرہیز کرتے ہیں جہاں وائرس کی موجودگی کا خدشہ ہو۔ اتنا ہی نہیں بلکہ سرکار نے جی پی ایس اور کال ڈیٹا کی مدد سے ایسی کئی ایپلی کیشنز بنائی ہیں جنہیں فیس بُک، ٹویٹر اور وٹس ایپ کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے۔ یہ ایپلی کیشنز مریض کی نقل و حمل پر نظر رکھنے میں مدد گار ہیں اور افراتفری کا شکار ہونے کی بجائے لوگ ان علاقوں میں جانے سے پرہیز کرتے ہیں جہاں یہ متاثرین گھوم رہے ہیں۔ ان لوگوں نے سماجی فاصلے کی اہمیت سمجھ لی ہے اور مذکورہ ویب سائٹ پر آنے والی تفصیلات محکمہ صحت کے کارکنوں کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے جس کے بعد وہ فوری کارروائی کرتی ہے۔
چین میں کورونا وائرس کے نمودار ہونے کے فوری بعد تائیوان نے ایک نیشنل ہیلتھ کمانڈ سنٹر قائم کیا۔سرکار نے اندرون ملک اور بیرون ممالک اسفار پر پابندی لگادی اور بِگ ڈیٹا کی مدد سے پہلے ہی متاثر ہوئے لوگوں کی شناخت کی جبکہ سوشل میڈیا پر آنے والی فرضی خبروں کو بھی بند کرادیا گیا۔نیشنل ہیلتھ انشورنس پالیسیز، ہجرتوں،کسٹم محکمہ کی اطلاعات، اسپتالوں میں مریضوں کی آمد سے متعلق ریکارڈ،ہوائی ٹکٹوں کیلئے اسکین کئے جاچکے ہیں۔
کیو آر کوڈ اور اس طرح کی انفارمیشن کا ایک ڈیٹا بیس بناکر لوگوں کو وقت وقت پر ضروری معلومات فراہم کی جاتی رہیں۔ان سب سے محکمہ صحت کیلئے متاثرہ مریضوں کی نقل و حمل پر نگرانی کرنے اور ان تک فوری رسائی رکھنے میں مدد ملی ہے۔بِگ ڈیٹا کی مدد سے حکام اس قابل بن گئے کہ وہ ایک ایک شخص کی صحت کے بارے میں سرحدی حفاظتی دستوں کو خبردار کرسکتے ہیں، چنانچہ کسی بھی شخص کی صحت کی ہیئت کے بارے میں یہ مسیجز ان لوگوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور انہیں اسی حساب سے نقل و حمل کی اجازت ملتی ہے۔
ان علاقوں میں کہ جہاں ناول کورونا وائرس کے اثر کا زیادہ احتمال تھا، علامتی متاثرین کی شناخت کر کے انہیں موبائل فون پر ٹریک کیا گیا اور قرنطینہ میں رکھا گیا۔ نیشنل ہیلتھ کمانڈ سنٹر نے ماسک کی سپلائی بڑھا کر ان کی قیمتوں پر بھی قریبی نظر رکھی ہوئی ہے۔ سنٹر نے لوگوں کو ان کے موبائل فونز پر ان دوا فروش دکانوں کا نقشہ تک فراہم کیا کہ جہاں پر ماسکس کا اسٹاک موجود ہے۔
چین میں کورونا متاثرین کی نقل و حمل پر موبائل ٹریکنگ کے نظام کے ذریعہ ہمہ وقت نظر رکھی گئی جس سے دیگر علاقوں میں وائرس کے پھیلاؤ کو قابو کرنے میں مدد ملی۔چینی سرکار نے الگورتھم کا استعمال کیا اور ملک کے سب سے بڑے ٹیلی کوم آپریٹر، چائنا موبائلز ڈیٹابیس،کی مدد سے سرکار نے شہریوں کی نقل و حمل نگرانی میں رکھی۔کئی نئی کمپنیوں نے علی بابا، بائڈو اور ہواوی جیسی بڑی کمپنیوں کے ساتھ کورونا وائرس کی جنگ میں اشتراک کیا۔جبکہ ڈاکٹر، اسپتال، محققین اور عوامی انتظامیہ ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعلق بناکر باہمی تعاون کے ساتھ کام کرتی ہے۔
علی بابا نے مصنوعی ذہانت پر مبنی ایک ایسا تشخیصی نظام بنوایا ہے جو چند سکینڈوں میں ہی وائرس کا پتہ لگا لیتا ہے۔ابھی تک اس نظام کی مدد سے 96فیصد درستگی کے ساتھ مریضوں کی تشخیص کی ہے اور یہ نیا نظام صحت کارکنوں اور اسپتالوں کیلئے بڑے کام کی چیز ثابت ہو رہا ہے۔بلیو ڈاٹ،جو کنیڈا کی ایک کمپنی ہے، اس نے سب سے پہلے کورونا وائرس کی وبا کے بارے میں خبردار کیا تھا۔چناچہ اس کمپنی کا مصنوعی ذہانت پر مبنی نظام روزانہ 65زبانوں میں لاکھوں مضامین، خبروں، بلاگ پوسٹس وغیرہ کا جائزہ لیتا ہے۔
عالمی صحت تنظیم(ڈبلیو ایچ او)کی جانب سے کووِڈ19کو عوامی صحت ایمرجنسی قرار دئے جانے سے 9دن قبل نے 2019میںدسمبر31کو خبر دار کیا تھا کہ چین کے ووہان میں”ایس اے آر ایس“وائرس جیسی کوئی مہلک بیماری پھیلنے کو ہے۔بلیو ڈاٹ کے اس نظام نے حکام کو میڈارِں میں آئے ایک مضمون سے متعلق خبردار کیا تھا کہ جس میں بتایا گیا تھا کہ 27افراد ووہان کے بازار سے لوٹنے کے بعد شدید نمونیا کا شکار ہوگئے ہیں۔
بلیو ڈاٹ کے40ملازمین میں ڈاکٹر، ویٹرنیرین، وبائی بیماریوں کے ماہرین، ڈیٹا کے ماہرین اور سافٹ وئیر بنانے والے پیشہ ور شامل ہیں۔یہ لوگ نیشنل لینگویج پروسیسنگ اور مشین لرننگ کی مدد سے 65زبانوں میں شائع ہونے والے مواد کا جائزہ لیتے ہیں اور کسی بھی بیماری کے پھوٹنے کے ایک اشارے پر بھی چوکس ہوجاتے ہیں۔فی الواقع یہ بلیو ڈاٹ ہی تھا جس نے امریکہ کو کنیڈا میں زائیکا وائرس نمودار ہونے سے متعلق خبر دار کردیا تھا۔
چین میں 80فیصد لین دین نقدی کے بغیر ہوتا ہے اور وہ نقدی کی بجائے علی پے اور وی چیٹ جیسی ایپلی کیشنز کا استعمال کرتے ہیں۔چینی حکام مسلسل طور پر اس ڈیٹا کو اپنے شہریوں کی حرکات کی نگرانی کرنے کیلئے استعمال کرتے ہیں اور ضرورت کے حساب سے کارروائی کرتے ہیں۔کمیونسٹ پارٹی آف چائنا پہلے ہی نگرانی کیلئے چہرے کی شناخت کا نظام استعمال کرتی رہی ہے اور اب چہرے کی شناخت کرنے والے یہ کیمرہ تھرمل سنسروں سے لیس کئے جارہے ہیں تاکہ چہرے کی شناخت کئے جانے کے ساتھ ساتھ کسی شخص کے بدن کا درجہ حرارت بھی ماپا جاسکے۔
ایک کمپنی جسکا نام سنس ٹائم ہے جو بدن کا درجہ حرارت لینے والی اس ٹیکنالوجی کا سافٹ وئیر فراہم کر رہی ہے۔سچوان خطے میں ایسے اسمارٹ ہیلمٹ بانٹے گئے ہیں جن میں تھرمل سنسر لگے ہوئے ہیں۔بِگ ڈیٹا اور مصنوعی ذہانت کی اعلیٰ ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے چینی سرکار نے صحتِ عامہ کی نگرانی کا ایک جامع نظام تخلیق کیا ہے جسے ”ہیلتھ کوڈ“ کا نام دیا گیا ہے۔یہ کوڈ سرکار کو کسی بھی مریض کے سفر کی تفصیلات رکھنے میں مدد کرتا ہے، جیسے کہ وہ کب اور کہاں گیا اور پہلے سے بیمارکس شخص سے کتنی دیر کیلئے ملا ہے ۔
علی پے اور وی چیٹ یہ ڈھونڈنے میں مدد کرتی ہیںکہ لوگ قرنطینہ میں ہیں یا کہیں نکلے ہوئے ہیں، ان ایپلی کیشنز میں لال، سبز اور پیلے کوڈ کا ایک نظام رکھا گیا ہے جسکی مدد سے لوگ اپنے رہائشی علاقوں کا کوڈ دیکھتے ہی یہ فیصلہ لے پاتے ہیں کہ وہ باہر آسکتے ہیں یا پھر انہیں قرنطینہ میں ہی رہنا چاہیئے۔
چینی اسپتالوں کو کورونا وائرس کی تشخیص کیلئے یومیہ تقریبا ایک ہزار سی ٹی اسکین لینا پڑتے ہیں۔انفر ویژن کمپنی کی مصنوعی ذہانت پر مبنی ٹیکنالوجی ان اسکینز کے فوری نتائج برآمد کرانے میں مدد کرتی ہے۔علی بابا گروپ صحت بیمہ کی ادائیگیوں کو تیز کرنے کیلئےبلاک چین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لارہا ہے۔ان ساری چیزوں اور ٹیکنالوجی کے وافر استعمال کی وجہ سے اسپتال عملہ اور مریضوں کا آمنا سامنا بہت کم ہوگیا ہے۔چونکہ یہ ربورٹ کو متاثر نہیں کرتا ہے لہٰذا ربورٹس کے ذریعہ عمارتوں اور عوامی مقامات پر چھڑکاؤ کرنے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔
چین کی پوڈو ٹیکنالوجی نے ان رابورٹس کی تخلیق کی ہے اور انہیں اسپتالوں میں خوراک اور ادویات پہنچانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ٹیرا کمپنی کے بنائے ہوئے ڈرون جانچ رپورٹس اور قرنطینہ کا سامان پہنچانے کیلئے استعمال ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی یہ نظام عوامی مقامات پر نگرانی رکھتے ہوئے یہ دیکھتا ہے کہ کہیں لوگ جمع تو نہیں ہو رہے ہیں ۔
ٹینسنٹ گروپ کی بنائی ہوئی وی چیٹ چینی عوام کو کورونا وائرس سے متعلق خبریں بھی فراہم کرتی ہے جبکہ ٹراول اور ٹورازم کے حوالے سے ربورٹس کا استعمال کرکے وہ ہوائی جہازوں اور ٹرینوں کی بر وقت اطلاعات بھی فراہم کرتی ہے۔ٹینسنٹ،ہواوے اور ڈی ڈی کے سپر کمپیوٹر کووِڈ19کا علاج ڈھونڈنے میں محقیقین کے لیے بڑے مددگار ثابت ہوئے ہیں۔ہانگ کانگ سے اسرائیل اور امریکہ تک مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کا استعمال کرتے ہوئے ناول کورونا وائرس کیلئے ویکسین بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
حالانکہ اگر جاری تجربات کامیاب بھی ہوئے تو بھی ویکسین کے بازار میں آنے میں ابھی ایک اور سال لگے گا۔ اس دوران اسرائیل سے خوش خبری آرہی ہے کہ وہاں کا ”میگیول انسٹی ٹیوٹ“ چوزوں میں سانس لینے کی تکلیف کیلئے ویکسین بنانے میں مشغول ہے۔ اس منصوبے میں مصروف سائنسدانوں کی تحقیق کورونا وائرس کی ایک خاص قسم پر مبنی ہے جس کا ڈی این اے ناول کورونا وائرس سے بہت ملتا ہے۔میگیول انسٹی ٹیوٹ نے اعلان کیا ہے کہ اگر اس کے سائنسدان کامیاب رہے تو وہ تین ماہ کے اندر ویکسین سامنے لاسکتے ہیں۔ ساری دنیا اس ویکسین کے سامنے آنے کیلئے بے چین ہورہی ہے۔