امریکی شہر نیو یارک میں روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاروف نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتِ حال پر روس، امریکا، چین اور پاکستان رابطے میں ہیں۔ روس کے وزیر خارجہ نے ہفتے کے روز کہا کہ امریکہ ، چین ، روس اور پاکستان مل کر کام کر رہے ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ افغانستان کے نئے طالبان حکمران اپنے وعدوں پر عمل کریں ، خاص طور پر ایک حقیقی نمائندہ حکومت بنانے اور انتہا پسندی کو پھیلنے سے روکنے کے لیے۔
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ روس ، چین اور پاکستان کے نمائندوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ اور پھر افغانستان کے دارالحکومت کابل کا سفر کیا تاکہ طالبان اور سابق صدر حامد کرزئی اور عبداللہ عبداللہ کے ساتھ بات چیت کی جا سکے۔ لاوروف نے کہا کہ طالبان کی طرف سے اعلان کردہ عبوری حکومت افغان معاشرے کے تمام مذہبی اور سیاسی قوتوں کی عکاسی نہیں کرتی لہذا ہم ان کے رابطوں میں مصروف ہیں اور یہ اب بھی جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان نے ایک جامع حکومت کا وعدہ کیا ہے جس میں خواتین کے حقوق ، 20 سال کی جنگ کے بعد استحکام اور عسکریت پسندوں کو اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکنا بھی شامل ہے۔ لیکن حالیہ اقدامات بتاتے ہیں کہ وہ زیادہ جابرانہ پالیسیوں کی طرف لوٹ سکتے ہیں، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کی تعلق سے۔
- عمران خان کا عالمی برادری سے مطالبہ، طالبان حکومت کی حمایت کریں
- افغانستان میں سیکورٹی نظام بہتر لیکن معاشی صورتحال خراب ہوگئی
- عالمی برادری افغانستان کو الگ تھلگ کرنے کی غلطی نہ دہرائے: پاکستانی وزیر خارجہ
لاوروف نے کہا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ جن وعدوں کا طالبان نے عوامی سطح پر اعلان کیا ہے ان کو پورا کیا جائے اور ہمارے لیے یہی اولین ترجیحات میں سے ہے۔ روسی وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ امریکی اور نیٹو افواج کو نتائج کی پرواہ کیئے بغیر جلد بازی میں افغانستان سے نکالا گیا، افغانستان میں غیر ملکی افواج کے رہ جانے والے ہتھیار شر پسند مقاصد کے لیے استعمال ہونے کا خطرہ ہے۔