ETV Bharat / international

افغانستان: ملا برادر کو خود کرنی پڑی اپنی موت کی تردید

author img

By

Published : Sep 16, 2021, 6:51 PM IST

جھگڑا پردے کے پیچھے ہوا ہے، لیکن صدارتی محل میں دو کیمپوں کے درمیان حالیہ پرتشدد تصادم کے بارے میں افواہیں تیزی سے گردش کرنے لگیں، اور یہاں تک دعوے کئے گئے کہ طالبان کے رہنما ملا عبد الغنی برادر جنہوں نے دوحہ میں امن مذاکرات کو عملی جامہ پہنایا تھا، انہیں قتل کر دیا گیا۔

Taliban govt figure has to deny death rumours
Taliban govt figure has to deny death rumours

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد نئی حکومت میں شامل دو بڑے رہنماؤں کے درمیان تنازعات کی اطلاعات کے بعد طالبان کے نائب وزیر اعظم کو اپنے ہی قتل کی افواہوں کی تردید کرنی پڑی ہے۔

افغانستان: ملا برادر کو خود کرنی پڑی اپنے موت کی تردید

حکومت میں شامل رہنماؤں کے قریبی ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے ایک سخت گیر کابینہ کی تشکیل کے بعد سے تنازع بڑھ گیا ہے جو 1990 کی دہائی میں ان کے سخت حکمرانی سے مشابہت رکھتا ہے۔

جھگڑا پردے کے پیچھے ہوا ہے، لیکن صدارتی محل میں دو کیمپوں کے درمیان حالیہ پرتشدد تصادم کے بارے میں افواہیں تیزی سے گردش کرنے لگیں، اور یہاں تک دعوے کئے گئے کہ طالبان کے رہنما ملا عبد الغنی برادر جنہوں نے دوحہ میں امن مذاکرات کو عملی جاما پہنایا تھا، انہیں قتل کر دیا گیا۔

یہ افواہیں اس حد تک پہنچ گئیں کہ خود برادر کو تحریری بیان اور آڈیو پیغام جاری کر اس بات کی تردید کرنی پڑی کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔

اس کے بعد بدھ کے روز برادر نے ملک کے قومی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو دیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ "کابل سے سفر کر رہے تھے اس لیے میڈیا تک رسائی نہیں تھی تاکہ اس خبر کو مسترد کر سکیں۔"

برادر نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے دوران چیف مذاکرات کار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جس سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی، جو اگست کے آخر میں مکمل ہوئی، جب طالبان نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا۔

واضح ہو کہ مبینہ طور پر ملا برادر سمجھتے ہیں کہ طالبان کی فتح کا سہرا ان جیسے رہنماؤں کی سفارتکاری کے سر باندھنا چاہیے جبکہ حقانی گروپ کے سینیئر ارکان کی رائے ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح لڑائی کے ذریعے حاصل کی گئی۔

خیال رہے کہ ملا برادر پہلے طالبان رہنما ہیں، جنہو ں نے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے براہ راست بات کی تھی۔ ٹیلی فون پر ٹرمپ سے ان کی گفتگو 2020 میں ہوئی تھی اور اس سے قبل انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلا کے معاہدے پر بھی طالبان کی جانب سے دستخط کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملا برادر اور خلیل الرحمان حقانی میں صدارتی محل میں تلخ کلامی

دوسری جانب حقانی نیٹ ورک حالیہ برسوں میں افغانستان کے اندر افغان اور غیر ملکی افواج پر خطرناک حملوں میں ملوث رہا ہے اور امریکہ نے اس گروپ کو دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی طالبان کی عبوری حکومت میں وزیر داخلہ ہیں۔

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد نئی حکومت میں شامل دو بڑے رہنماؤں کے درمیان تنازعات کی اطلاعات کے بعد طالبان کے نائب وزیر اعظم کو اپنے ہی قتل کی افواہوں کی تردید کرنی پڑی ہے۔

افغانستان: ملا برادر کو خود کرنی پڑی اپنے موت کی تردید

حکومت میں شامل رہنماؤں کے قریبی ذرائع کے مطابق گزشتہ ہفتے ایک سخت گیر کابینہ کی تشکیل کے بعد سے تنازع بڑھ گیا ہے جو 1990 کی دہائی میں ان کے سخت حکمرانی سے مشابہت رکھتا ہے۔

جھگڑا پردے کے پیچھے ہوا ہے، لیکن صدارتی محل میں دو کیمپوں کے درمیان حالیہ پرتشدد تصادم کے بارے میں افواہیں تیزی سے گردش کرنے لگیں، اور یہاں تک دعوے کئے گئے کہ طالبان کے رہنما ملا عبد الغنی برادر جنہوں نے دوحہ میں امن مذاکرات کو عملی جاما پہنایا تھا، انہیں قتل کر دیا گیا۔

یہ افواہیں اس حد تک پہنچ گئیں کہ خود برادر کو تحریری بیان اور آڈیو پیغام جاری کر اس بات کی تردید کرنی پڑی کہ انہیں قتل کیا گیا ہے۔

اس کے بعد بدھ کے روز برادر نے ملک کے قومی نشریاتی ادارے کو ایک انٹرویو دیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ "کابل سے سفر کر رہے تھے اس لیے میڈیا تک رسائی نہیں تھی تاکہ اس خبر کو مسترد کر سکیں۔"

برادر نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے دوران چیف مذاکرات کار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں، جس سے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کی راہ ہموار ہوئی، جو اگست کے آخر میں مکمل ہوئی، جب طالبان نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا۔

واضح ہو کہ مبینہ طور پر ملا برادر سمجھتے ہیں کہ طالبان کی فتح کا سہرا ان جیسے رہنماؤں کی سفارتکاری کے سر باندھنا چاہیے جبکہ حقانی گروپ کے سینیئر ارکان کی رائے ہے کہ افغانستان میں طالبان کی فتح لڑائی کے ذریعے حاصل کی گئی۔

خیال رہے کہ ملا برادر پہلے طالبان رہنما ہیں، جنہو ں نے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے براہ راست بات کی تھی۔ ٹیلی فون پر ٹرمپ سے ان کی گفتگو 2020 میں ہوئی تھی اور اس سے قبل انہوں نے افغانستان سے امریکی انخلا کے معاہدے پر بھی طالبان کی جانب سے دستخط کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملا برادر اور خلیل الرحمان حقانی میں صدارتی محل میں تلخ کلامی

دوسری جانب حقانی نیٹ ورک حالیہ برسوں میں افغانستان کے اندر افغان اور غیر ملکی افواج پر خطرناک حملوں میں ملوث رہا ہے اور امریکہ نے اس گروپ کو دہشتگرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے سربراہ سراج الدین حقانی طالبان کی عبوری حکومت میں وزیر داخلہ ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.