عراق کے کردستان علاقے میں داہوک شہر کے دومِز کیمپ میں شامی پناہ گزینیوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔
ان کیمپز میں رہنے والے پناہ گزینوں کو نوکریاں کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ انہیں میں سے کچھ لوگوں نے اپنی تجارت کی بھی شروعات کر دی ہے۔
شامی پناہ گزیں آمنہ تیمو بتاتی ہیں کہ متعدد تنظیموں کی جانب سے فنڈز میں کمی کیے جانے کی وجہ سے پناہ گزینوں کو کسی بھی کام کے لیے مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔
کچھ خواتین صفائی کا کام کرتی ہیں تو کچھ کو جو بھی کام مل جاتا ہے اپنے بچوں کی پرورش کی غرض سے کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔
اسی کیمپ میں رہنے والی 19 سالہ ناجدہ عبد الکریم اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تروئی کی کھیتی کر رہی ہیں۔
ناجدہ عبد الکریم کا کہنا ہے کہ انہوں نے تروئی کی کھیتی کو روزی روٹی کے طور پر شروع کیا ہے۔ وہ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ اس کے ذریعہ وہ اپنے گھر کا گزر بسر کر لیتی ہیں۔
واضح رہے کہ عالمی اداروں کی جانب سے پناہ گزینیوں کو دیے جانے والے فنڈز میں کمی کے باعث پناہ گزینوں کے لیے نوکریوں کی تلاش کرنا یا دیگر پیشہ اختیار کرنا مجبوری بن گیا ہے۔
داہوک کے 6 ہزار 242 کیمپز میں تقریبا 7 ہزار 680 خاندان کے لوگ یعنی 35 ہزار افراد زندگی گزار رہے ہیں۔ اور انہیں ان کے وطن کب واپس لوٹایا جائے گا ابھی کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔