عالمی میڈیا میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے پناہ گزین کمشنر عبدالکلام نے بتایا کہ واپسی کے عمل کے لیے ایک ہزار 56 خاندانوں میں سے صرف 21 خاندانوں کو منتخب کیا گیا جو حکام کو اس بات کا انٹرویو دینے کے لیے تیار ہیں کہ آیا وہ میانمار لوٹنا چاہتے ہیں یا نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام خاندانوں کا کہنا تھا کہ وہ واپس نہیں جانا چاہتے جبکہ بنگلہ دیش کے کاکس بازار میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپ جہاں 10 لاکھ روہنگیا پناہ لیے ہوئے ہیں، زندگی معمول کے مطابق جاری ہے۔انہوں نے کہا کہ اب ماضی جیسی افراتفری نہیں ہے، وہ حکام کے پاس گئے اور کھل کر بات کی جو بہت مثبت بات ہے اب وہ صورتحال کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ہمارے پاس کل کا دن ہے، امید ہے کہ مزید کئی خاندان انٹرویو میں شرکت کریں گے'۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی حقوق کے ترجمان نے ایک ای میل میں بتایا کہ دوسرا انٹرویو ان پناہ گزینوں کے ساتھ کیا جائے گا جنہوں نے منگل کے روز ہوئے سروے میں واپس لوٹنے پر آمادگی کا اظہار کیا تھا۔
اس سلسلہ میں انٹرویو دینے والے کچھ روہنگیا پناہ گزینوں کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت تک واپس نہیں لوٹیں گے جب تک میانمار انہیں شہریت نہ دے دے۔
دوسری جانب کئی نسلوں سے میانمار میں مقیم ہونے کے باوجود حکام نے انہیں شہریت دینے سے انکار کردیا ہے اور انہیں بنگالی کہنے پر ہی بضد ہیں۔
البتہ میانمار نے اس بات کی تصدیق کردی تھی کہ 3 ہزار 450 افراد پر مشتمل منتخب خاندان میانمار میں فوجی حملوں کے بعد بنگلہ دیش آئے تھے۔
اس سے قبل میانمار کابینہ کے وزیر نے بتایا تھا کہ میانمار اور بنگلہ دیش دونوں مہاجرین کی واپسی کے لیے رضامند ہوگئے ہیں اور اس سلسلے میں یو این ایچ سی آر کی مدد طلب کی ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی دونوں ممالک نے یو این ایچ سی آر کے تعاون سے یہ کوشش کی تھیں جو روہنگیا کے واپس لوٹنے سے انکار کی وجہ سے ناکام ہوگئی تھیں۔