افغانستان کے ہسپتال اور امدادی گروپ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی غذائی قلت کا مقابلہ کر رہے ہیں کیونکہ ملک کی گرتی ہوئی معیشت لاکھوں لوگوں تک خوراک پہنچانے میں سب سے بڑی رکاوٹ بن رہی ہے۔
جنوبی شہر قندھار کے میروائز ہسپتال، غذائی قلت کے شکار بچوں سے بھرے پڑے ہیں، ان میں سے کچھ بچے اتنے زیادہ کمزور ہوگئے ہیں کہ ان کی ہڈیاں صاف صاف ظاہر ہورہی ہیں۔
میر واعظ ہسپتال کے پیڈیاٹرک وارڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمد صادق کا کہنا ہے کہ اکتوبر میں غذائی قلت کے کیسز کی تعداد پچھلے مہینوں کے مقابلے میں دگنی ہوگئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریڈ کراس سوسائٹی باہر سے دوائی لاتے ہیں اب یہ 6 ماہ کے لیے کافی نہیں ہے۔ یہ 3 ماہ یا 4 ماہ تک ہی چل سکتی ہیں کیونکہ غذائی قلت کے شکار بچوں کی تعداد دوگنی ہو رہی ہے۔
وہیں کابل کے اندرا گاندھی ہسپتال میں نرسنگ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر ضیا محمد کا کہنا ہے کہ دو ماہ اور تین ماہ سے ہمارے یہاں غذائی قلت کے مریض روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ جب میں ماں اور باپ سے پوچھتا ہوں تو سب غربت کی شکایت کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت آج ہمارے پاس ہسپتال میں غذائیت کے وارڈز میں 18 مریض داخل ہیں، لیکن ہو سکتا ہے کہ ایک گھنٹے سے دو گھنٹے بعد اس میں اضافہ ہو جائے۔
افغان خاندان دسترخوان پر خوراک رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، ملک میں خشک سالی اور خراب معیشت کی وجہ سے بہت سے افغان مہینوں سے بلا معاوضہ کام کررہے ہیں۔
دراصل امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے براہ راست افغانستان کی مالی امداد منقطع کر دی ہے، جب کہ طالبان حکومت ملک کے باہر رکھے گئے اربوں ڈالر کے افغانی اثاثے تک رسائی نہیں کرسکتے ہیں، نتیجتاً لاکھوں افغانوں کو مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل پارہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
- پیر سے افغانستان میں انسداد پولیو کی مہم کا آغاز
- افغانستان میں انسانی زندگی کے ممکنہ بحران پر تشویش، امداد کی سخت ضرورت
- افغانستان معاشی بحران کے ساتھ ساتھ داخلی سکیورٹی کے مسائل سے بھی دوچار
نائب علاقائی ہیلتھ منیجر موسیٰ جان سلطانی کے مطابق افغانستان میں ہمارے پاس بہت کم ڈاکٹر ہیں۔ وہ ہیلتھ کلینک اور ہسپتالوں میں بغیر تنخواہ کے کام کر رہے ہیں۔ مختلف ادویات کی قلت ہے، ہم اپنا کام جاری رکھیں گے اور صحت کا شعبہ ماضی کی طرح ہی رہے گا۔
ورلڈ فوڈ پروگرام اور یونیسیف نے اکتوبر کے اوائل میں خبردار کیا تھا کہ 39 ملین کی آبادی والے ملک میں کم از کم 10 لاکھ بچے فوری علاج کے بغیر شدید غذائی قلت کی وجہ سے مرنے کے دہانے پر ہیں۔
کم از کم 14 ملین افراد کو پہلے ہی شدید غذائی قلت کا سامنا ہے، اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے ایک حالیہ سروے کے مطابق 95% گھرانوں نے کہا کہ والدین کم کھا رہے ہیں اور کھانا چھوڑ رہے ہیں تاکہ ان کے بچے کھا سکیں۔
یونیسف کے بقول اگر افغانستان کی بروقت امداد نہ کی گئی تو ایک اندازے کے مطابق 5 سال سے کم عمر کے 3.2 ملین بچے سال کے آخر تک شدید غذائی قلت کا شکار ہوسکتے ہیں۔