وزیراعظم عمران خان نے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ 'ہم بھارتی میڈیا کے دعوے سن رہے ہیں کہ کچھ دہشت گرد اپنی کارروائیوں کے لیے افغانستان سے کشمیر میں جبکہ بعض بھارت کے جنوبی علاقوں میں گھس چکے ہیں۔ ان دعوؤں سے واضح ہو گیا کہ کشمیر میں قتل عام اور کشمیریوں کی نسل کشی کے بھارتی ایجنڈے سے توجہ ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔'
انہوں نے دیگر ٹویٹ میں کہا کہ' میں اقوام عالم کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ بھارتی قیادت ممکنہ طور پر جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے ہاتھوں انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر پامالی اور وحشت و تشدد کے راج سے توجہ ہٹانے کے لیے ایک جعلی فلیگ آپریشن کا سہارا لینے کی کوشش کرے گی۔'
واضح رہے کہ اس سے قبل پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے کشمیر کے موقف پر بھارتی اقدام پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'وہ بھارتی ذمہ داران سے اب اور بات چیت کرنا نہیں چاہیں گے۔'
اسی کے ساتھ انہوں نے یہ انتباہ بھی دیا کہ نیوکلیائی ہتھیاروں سے مسلح ہمسائے ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر کھڑے ہیں، تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کو ایک انٹرویو میں، خان نے بھارت سے مزید مذاکرات کے امکان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے دنیا کو خبردار کیا کہ 'کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے لہذا دنیا اس صورتحال سے باخبر رہے۔
وزیر اعظم پاکستان نے اپنے دفتر میں اس اخباری ملاقات میں یہ دعویٰ بھی کیا کہ 'وہ بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکے ہیں اور بدقسمتی سے بھارت نے ان کی باتوں کو محض تسکین کے لیے سنا ہے لہذا مزید کچھ نہیں کیا جا سکتا۔'
مسٹر خان نے اپنے انٹرویو میں اس تشویش کا بھی اظہار کیا کہ پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز پیش کرنے کے لیے بھارت کشمیر میں "فالس فلیگ آپریشن" کی آڑ لے سکتا ہے اور اس طرح پاکستان جواب دینے پر مجبور ہوگا۔
ٹائمز کے مطابق بھارتی سفیر برائے امریکہ ہرش وردھن شرنگلہ نے بہر حال اس تنقید کو مسترد کر دیا اور کہا کہ امن کی طرف ہمیشہ بھارت نے پہل کی لیکن اس کا مثبت جواب نہیں ملا۔ باوجود یہ کہ بھار ت چاہے گا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف معتبر، مصدقہ اور حتمی قدم اٹھائے۔
بھارتی سفیر نے مزید کہا کہ 'جموں و کشمیر میں عوامی افادیت کی خدمات، بینک اور اسپتال عام طور پر کام کر رہے ہیں۔ کھانے پینے کا مناسب ذخیرہ موجود ہے۔ مواصلات پر کچھ پابندیاں شہریوں کی حفاظت اور حفاظت کے مفاد میں ہیں۔'