پاکستانی میڈیا کے مطابق منگل کو اقتصادی امور کے وزیر عمر ایوب خان کی صدارت میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں نئی افغان انتظامیہ کا تعاون کرنے کے متعلق مختلف آپشنز پر غور کیا گیا۔
یہ اجلاس ان اطلاعات کے درمیان میں ہوئی کہ جنگ زدہ ملک کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔ لیکن اہم چیلنجز یہ ہے کہ افغان حکومت کو دنیا کی جانب سے تسلیم کیے بغیر یہ کیسے کیا جائے۔
نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ وزیر سید فخر امام ، قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ڈاکٹر رضا باقر ، واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل مزمل حسین اور دیگر اعلیٰ حکام نے افغانستان کے ساتھ اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال کے لیے بلائے گئے اجلاس میں شرکت کی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کو بتایا گیا کہ افغان حکومت کے لیے بڑا چیلنج یہ ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے فورا بعد تکنیکی اور مالی ماہرین کی بڑی تعداد کی ملک سے روانگی سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کیا جائے۔
بجلی ، طبی اور مالی سہولیات جیسی ضروری خدمات بڑے اداروں خصوصا تکنیکی اور مالیاتی اداروں میں ماہرین کی کمی کی وجہ سے بآسانی کام شروع نہیں ہوپارہا ہے۔
- افغانستان میں سیکورٹی نظام بہتر لیکن معاشی صورتحال خراب ہوگئی
- افغانستان میں صرف پانچ فیصد لوگوں کے پاس ہی کھانے کے لیے کافی مقدار ہے: ڈبلیو ایف پی
اقتصادی امور کے وزیر عمر ایوب نے افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں دوطرفہ اقتصادی امداد پر زور دیا۔ وزیر کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت افغانستان کے لوگوں کو ان کے سماجی و اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا "انسانی بنیادوں پر تکنیکی اور مالی مدد کی فوری ضرورت ہے تاکہ افغان عوام کی زندگی اور معاش کو بچایا جا سکے۔"
نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ کے وزیر سید فخر امام نے کہا کہ 14 ملین افغانوں کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا کرنے کی اطلاعات تشویش ناک ہیں۔