پاکستان اتوار کو 57 رکنی اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے ایک خصوصی اجلاس کی میزبانی Pakistan Host OIC Summit کر رہا ہے جس میں افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا جائے گا اور ابھرتے ہوئے انسانی اور اقتصادی بحران سے نکلنے کا راستہ تلاش کیا جائے گا۔
یہ کانفرنس طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے بڑا بین الاقوامی اجتماع ہے۔ کانفرنس میں او آئی سی کے ارکان کے علاوہ 70 مندوبین شرکت کر رہے ہیں جس میں امریکا، روس، برطانیہ، یورپی یونین، ورلڈ بینک اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے وفود کے خصوصی نمائندے قابل ذکر ہیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، جو او آئی سی اجلاس OIC Summit کی صدارت کر رہے ہیں، نے اجلاس سے افتتاحی خطاب کیا۔
اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے افغانستان میں صورتحال کو اجاگر کرنے اور اس کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی طرف دنیا کی توجہ مبذول کرانے کے لیے کلیدی خطاب کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال انتہائی سنگین ہے اور اگر فوری طور پر ایکشن نہ لیا گیا تو پڑوسی ملک افراتفری کا شکار ہو سکتا ہے۔ہم یہ بات گزشتہ تین ماہ سے کر رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ دنیا افغانستان میں پیدا ہونے والے انسانی بحران پر خاموش ہے۔ افغان عوام کی مدد کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ میں عالمی برادری، امریکہ اور یورپ سے درخواست کرتا ہوں کہ افغانستان میں انسانی بحران اور خطے کے ممالک کو پناہ گزینوں کے مسئلے سے دوچار ہونے سے بچانے کے لیے کردار ادا کریں۔‘
پاکستان کے وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کشمیر اور فلسطین کا ذکرتے ہوئے کہا کہ وہاں کی عوام ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔
اس کے علاوہ عمران خان نے اسلاموفوبیا کو انتہائی اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ مغرب کو اس بارے میں آگاہ کرنے اوربات چیت کے لیے او آئی سی اپنا کردار ادا کرے۔ ہمیں اسلام کے حقیقی تشخص کو اجاگر کرنا ہوگا۔
پاکستان میں او آئی سی کا اجلاس OIC Summit Begin in Pakistan جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:
Pakistan On OIC Meeting: ہم دنیا کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ افغانستان میں حالات بگڑ رہے ہیں
واضح رہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کو 100 سے زائد دن گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک اس تنظیم کو دنیا کے کسی ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
خواتین اور انسانی حقوق کا احترام، جامع حکومت کا قیام، افغانستان کو دہشت گردی کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے دینا عالمی برادری کی جانب سے تسلیم کرنے کی پیشگی شرائط ہیں۔
مزید برآں، طالبان کے قبضے کے نتیجے میں افغانستان کو معاشی بدحالی اور انسانی تباہی کا سامنا ہے۔ ملک کے اربوں ڈالر مالیت کے بیرون ملک اثاثے، زیادہ تر امریکہ میں منجمد کر دیے گئے ہیں اور ملک کو ملنے والی بین الاقوامی مالی امداد بند ہو گئی ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس ماہ کے شروع میں او آئی سی کے اجلاس کے لیے ایک باضابطہ اعلان کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ سربراہی اجلاس کا مقصد امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں جنم لینے والے انسانی بحران کو روکنا ہے۔