اقوام متحدہ کے ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن (IOM) نے ایک بیان میں کہا "افغانستان تقریباً 40 ملین لوگوں کا ملک ہے، جن میں سے تقریباً سبھی 2022 کے وسط تک انتہائی غربت میں گر سکتے ہیں اگر بیک وقت انسانی، معاشی اور سیاسی بحرانوں سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر کوئی اقدام نہ کیا گیا،"
ادرہ نے کہا کہ ملک کی ضروری خدمات منہدم ہو رہی ہیں۔ بنیادی اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ روزگار کے مواقع ختم ہوتے جارہے ہیں۔ بینکنگ کا نظام بری طرح سے درہم برہم ہے، جس سے ملک بھر میں نقدی کی زبردست قلت پیدا ہو رہی ہے اور ملک میں COVID-19 وبائی بیماری بھی جاری ہے۔
آئی او ایم کے بیان کے مطابق افغانستان کو اس وقت بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سامنا ہے۔
ابھی تک کے ایک اندازے کے مطابق 5.5 ملین افراد ملک کے اندر ہی بے گھر ہوچکے ہیں، جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو بہت دنوں سے بے گھر ہیں اور 68 لاکھ وہ افراد ہیں جو 2021 میں نئے تنازعات سے بے گھر ہوئے ہیں۔ یہ صرف 2021 میں ایران اور پاکستان سے 1.1 ملین غیر دستاویزی افغان واپس آنے والوں کے علاوہ ہے۔
بدھ کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے افغانستان کی صورتحال پر اجلاس طلب کیا تھا جس میں مختلف ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں:
- افغانستان: تقریبا 10 لاکھ بچےغذائی قلت کی وجہ سے مرنے کے دہانے پر
- افغانستان میں انسانی زندگی کے ممکنہ بحران پر تشویش، امداد کی سخت ضرورت
افغانستان میں جامع حکومت کے مطالبے کو تقویت دیتے ہوئے اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ملک کو طالبان کے تحت خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کی پامالی کا سامنا ہے۔
سیکرٹری جنرل کی خصوصی نمائندہ اور افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی سربراہ ڈیبورا لیونز نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا کہ "افغان خواتین اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق اور آزادیوں میں عمومی طور پر کمی کی گئی ہے۔"
انہوں نے کہا، "لڑکیوں کی تعلیم پر ڈی فیکٹو حکام نے اشارہ کیا ہے کہ وہ ملک گیر پالیسی پر کام کر رہے ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق کو پورے ملک میں استعمال کیا جا سکے۔"
لیکن لیونز نے اس بات پر زور دیا کہ طالبان حکام نے کہا ہے کہ انہیں پالیسی اور اس پر عمل درآمد کی وضاحت کے لیے مزید وقت درکار ہے۔