حزب اختلاف کے صدارتی امیدوار محمد نشید، مالدیپ اسپیکر کے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد بھارت کے اپنے پہلے دورے پر ہیں۔
جزیرے نما ملک مالدیپ کے سابق صدراور اب مجلس (پارلیمنٹ) کے اسپیکر محمد نشید کے ساتھ چین پر زور ڈالنے کے بعد تناؤ ایک بار پھر بڑھ رہا ہے۔
صدر ابراہیم سہیل اور ان کے وزیر خارجہ عبداللہ شاہد کے برعکس جو بیجنگ سے پریشان ہونے سے بچنے کے لئے محتاط بیانات دے رہے ہیں، جمعہ کے روز محمد نشید نے کوئی بات نہیں کی اور چین کی ’زمین پر قبضہ‘ کا موازنہ نوآبادیاتی ایسٹ انڈیا کمپنی سے کیا۔
مالدیپ کے ممتاز رہنما جو کئی برس جلاوطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھے، وہ 2018 کے انتخابات نہیں لڑسکے جس میں ان کی پارٹی کے ایم ڈی پی نے امیدوار سہیل کے ساتھ ایک حیرت انگیز کامیابی کے ساتھ اقتدار میں واپس لوٹے ہیں۔
حزب اختلاف کے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے محمد نشید اپنے پہلے دورے کے موقع پر وزیر اعظم مودی اور دیگر رہنماؤں سے اپنی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نشید نے کہا کہ 'چین اپنے قرضوں یا ترقیاتی امداد کو جان بوجھ کر چھوٹی قوموں کو قرضوں میں پھسانے کے لیے تشکیل دیتا ہے'۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ 'چین کو ان قرضوں کی بحالی کرنی ہوگی جو بحر ہند پر چھوٹی لیکن جغرافیائی اعتبار سے اس کی بڑی ذمہ دار ہے۔ چین نے ایسٹ انڈیا کمپنی سے زیادہ اراضی پر قبضہ کیا ہے۔ انہوں نے ہمیں ترقیاتی امداد نہیں دی۔ یہ قرض کا جال تھا۔ اب ہمیں شرائط کی بنیاد پر معاہدوں کو کروانا چاہئے۔ ہم اسے نہیں روک سکتے۔ ہمیں بل ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن چینی حکومت کو قرض کی تنظیم نو کرنی ہوگی'۔
نشید نے مزید کہا کہ 'جزیرے نما مالدیپ کی قوم سیاحت پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔ چین کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لئے چین کو تقریبا 3.5 بلین امریکی ڈالر کا واجب الادا ہے۔ جس میں پُل اور سڑکیں شامل ہیں، جنہیں آمرانہ صدر یامین کی سابقہ حکومت میں بیجنگ نے تعمیر کیا تھا'۔
انہوں نے کہا کہ 'قرضوں کی ادائیگی ناممکن ہے۔ پیسہ ہمارے پاس کبھی نہیں آیا۔ لیکن ہمارے پاس ادائیگی کے لیے ایک بہت بڑا بل ہے اور ہم پر اس بل کی ادائیگی بہت حد تک ناممکن ہے؛ جن کو ہمیں ادا کرنا ہوگا'۔
انھوں نے بتایا کہ مالدیپ میں بہت سارے مقروض سیاستدان اس کی ادائیگی نہیں کرتے ہیں۔ پہلے جمہوری طور پر منتخب سابق صدرنے متنبہ کیا تھا کہ 'اگلے چند برسوں میں اگر چین قرضوں کے جالوں پر کوئی اصلاح نہیں کرتا ہے تو مالدیپ انسانی حقوق کے لیے بین الاقوامی ثالثی کی طرف رجوع پر غور کرسکتا ہے'۔
بتادیں کہ مالدیپ کے جمہوری طور پر منتخب سابق صدر نے بغاوت اور بین الاقوامی عدالت میں جلاوطنی کے دوران اپنے عہدے سے برطرفی کو چیلنج کیا تھا۔
انہوں نے یامین حکومت کے ذریعہ آزاد تجارت کے معاہدے (ایف ٹی اے) پر زور دیا اور اس کی مجلس کے ذریعہ 2018 میں کسی بھی طرح کی حزب اختلاف کی موجودگی میں اسے ’مردہ‘ قرار دیا۔ ایف ٹی اے مر گیا ہے اور اب اس کو پارلیمنٹ کی منظوری درکار ہے اور اس کی منظوری نہیں دی جائے گی… جسے چین نے استعمار کے طور پر زمین پر قبضہ کیا تھا'۔
نشید نے نئی دہلی اور بیجنگ کے مابین سخت کشیدگی کو 'اندرونی تضادات' قرار دیا ہے، اور ان کو لے کر وہ مایوس نہیں ہے۔
قبل ازیں وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنی میٹنگ میں نشید نے بھارت سے مالدیپ میں ایک بلین امریکی ڈالر کی کریڈٹ لائن کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں کو ’فاسٹ ٹریک‘ کرنے کی درخواست کی۔
بھارت دورے کے دوران انہوں نے اپنے پارلیمانی وفد سے بات چیت کرتے ہوئے القاعدہ کی شدت پسندی کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا۔
بتایا جاتا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں مالدیپ سے لگ بھگ 250 کے قریب افراد عسکریت کی حیثیت سے آئی ایس کی صفوں میں شامل ہوئے تھے۔
مسلم اکثریتی ملک ملائشیا میں مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کو پناہ دینے کے بارے میں پوچھے جانے پر محمد نشید نے تشویش کا اظہار کیا اور مزید کہا کہ بھارت کے ذریعہ مطلوب ٹیلی ویژن کو مالدیپ میں بھی پابندی لگائی گئی۔
ای ٹی وی بھارت سے خصوصی گفتگو میں نشید نے کہا کہ ' شہریت ترمیمی قانون بھارتی سیاست کا اندرنی معاملہ ہے۔ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمیں بھارتی جمہوری نظام پر بھروسہ ہے۔ جب آپ کی پارلیمنٹ کچھ کرتی ہے تو ہمیں یقین ہے کہ یہ ایک مناسب عمل ہی ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک عہد (وعدہ) تھا جو حکومت نے اپنے منشور میں کیا تھا۔ آپ کے منتخب ہونے کی ایک وجہ منشور کی پاسداری بھی ہے'۔
مزید پڑھیں : 'شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کرنا بھارت کا اندرونی معاملہ ہے'
اس قانوں کے بارے میں نشید نے کہا کہ 'جس نے شمال مشرق کی متعدد ریاستوں میں پرتشدد مظاہرے کو جنم دیا ہے اور اسے اقلیتیوں خاص کر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اس کے حل کے لیے علاقائی تعاون کی بنیاد پر ایک میکانزم کی بہت زیادہ ضرورت ہے'۔