در اصل کرد ایک خانہ بدوش قوم کا نام ہے۔ وہ اصل میں میسوپوٹامیا، جس کا موجودہ نام عراق ہے۔ اسی کے اصل باشندے ہیں۔ ان کی اکثریت پہاڑی علاقوں میں رہنے کے سبب ماڈرن دنیا سے دور نظر آتی ہے۔ انہیں خانہ بدوش بنجارہ قوم کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔
آج بھی متعدد علاقوں میں کردوں کی زندگی جانوروں پر منحصر ہے۔ بھیڑ بکریوں اور دیگر جانوروں کو چرانا اور انہیں اپنی معاشی ضرورت کے طور پر استعمال کرنا ان کی زندگی میں عام بات ہے۔
وہ روایتی طور پر جنگجو قوم تصور کیے جاتے ہیں۔ جیسا کہ عظیم فاتح سلطان صلاح الدین ایوبی کا نام پوری دنیا جانتی ہے۔ وہ بھی اسی کرد نسل سے تعلق رکھتے تھے۔
فی الحال کردوں کی آبادی عراق ایران، ترکی، سیریا، آرمینیا اور جرمنی کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی موجود ہے۔ ان کی مکمل آبادی تقریبا ساڑھے تین کروڑ بتائی جاتی ہے۔
الگ زبان، الگ تہذہب کے ساتھ ان کی زندگی گذارنے کے بھی الگ طور طریقے ہیں۔ یہ کردش اور زازا گورانی زبانیں بولتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر سنی مسلمان ہیں، لیکن ان میں شیعہ، عیسائی یہودی، ربوبی یزیدی، صوفی، یارسانی زرتشت، علوی اور لا ادری مذاہب کے بھی پیروکار ہیں۔
ترکی میں کردوں کی حالت؟
آئیے سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ ترکی میں کردوں کی کیا حیثیت ہے۔ اور ترکی میں ان کی کتنی آبادی ہے۔ در اصل ترکی میں کردوں کی آبادی تقریبا ڈیڑھ کروڑ ہے۔ اس طرح ترکی کی مکمل آبادی کا تقریبا 15 سے 20 فیصد حصہ کردوں پر مشتمل ہے۔
سنہ 1920 میں 'سیوریس' نامی ایک معاہدے میں کردوں کو ایک علیحدہ ملک کردستان دیے جانے کی بات کہی گئی تھی، تاہم سنہ 1923 میں 'لوزین' نامی ایک دوسرے معاہدے میں سیوریس معاہدے کو ختم کر دیا گیا۔ اور اس طرح کردوں کے کردستان کا خواب چکنا چور ہو گیا۔
سنہ 1923 میں جب مشرق وسطی میں سرحدی نظام کا قیام ہوا، تو کردوں کو کوئی ملک نہیں مل سکا، اسی لیے وہ مختلف ممالک میں اقلیت کے طور پر رہنے کو مجبور ہو گئے۔ اقلیت میں ہونے کے سبب ترکی، عراق ایران اور سیریا میں ان پر زیادتیاں کی گئیں، اسی لیے بغاوتوں کے سبب گوریلا جنگوں کا سلسلہ بھی دیکھنے کو ملا۔
ترکی حکومت اور ترکی کے کردوں کے درمیان گہری دشمنی کی قدیم تاریخ رہی ہے۔ کردوں کے ذریعہ کی گئی متعدد بغاوتوں کے سبب انھیں ترکی کے اندر سنہ 1920 اور 1930 کے عشرے میں علاقہ بدر بھی کر دیا گیا تھا۔
سنہ 1978 میں کرد نسل کے ایک رہنما عبداللہ اوغلان نے ترکی میں ایک سیاسی جماعت 'پی کے کے' کا قیام کیا، اور ترکی حکومت سے کردوں کی خودمختاری کے بارے میں بات چیت کی شروعات کی، لیکن جب اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، تو آخر کار 'پی کے کے' نے سنہ 1984 میں ہتھیار اٹھا لیا اور مسلح جد و جہد شروع کردی۔
اُس وقت سے اب تک چالیس ہزار کرد نسل کے لوگ ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔
ترکی میں کردوں کے نام اور ان کے لباس پر پابندی ہے، کرد زبان بولنے پر بھی پابندی تھی، لیکن یہ پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ترکی میں کرد نسل کے وجود کو بھی ماننے سے انکار کر دیا گیا ہے، اسی لیے انہیں کرد کے بجائے پہاڑی ترک کہا جاتا ہے۔
جب 'پی کے کے' نے محسوس کیا کہ ہتھیار اٹھانے سے انہیں آزادی نہیں مل سکے گی، تو آخر کار 90 کے عشرے میں کرد رہنما اوغلان نے محض کرد ثقافت کے ساتھ زندگی گذارنے کی آزادی اور سیاسی خود مختاری کا مطالبہ کیا، تاکہ وہ کردوں کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں۔
اس کے تحت سنہ 2012 میں ترکی حکومت اور کرد رہنماوں کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن سنہ 2015 میں ایک خود کش دھماکے میں درجنوں کردوں کی ہلاکتوں کے سبب یہ صلح کا منصوبہ ختم ہو گیا۔
بعد ازاں 'پی کے کے' سے وابستہ افراد نے ترکی کی افواج پر حملے شروع کر دیے، اور ترکی میں گوریلا جنگوں کا آغاز ہو گیا۔
انہیں بغاوتوں کے سبب ترکی حکومت نے کردوں کی جماعت 'پی کے کے' کو ایک دہشت گرد جماعت قرار دے دیا۔ اسی لیے اس کے بانی عبداللہ اوغلان کو دہشت گردی کے الزام کے تحت سنہ 1999 میں میں قید کر دیا گیا، اور آج تک قید رکھا گیا ہے۔
مجموعی طور پر ترکی میں تمام تر سختیوں اور پابندیوں کے باوجود کردوں کی جد و جہد جاری ہے۔
شام میں کردوں کا کیا حال ہے؟
سیریا یعنی شام میں کل آبادی کا تقریبا 10 فیصد حصہ کردوں پر مشتمل ہے۔ شام میں بھی کردوں کا حال کم و بیش ترکی ہی جیسا ہے۔ یہاں بھی کردوں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا، اور ان کی آزاد ریاست کے مطالبے کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا۔ یہاں تک کہ لاکھوں کردوں کو ان کی شہریت سے محروم رکھا گیا۔
سنہ 1960 سے قبل شام میں کردوں کی آبادی ملک کے مختلف علاقوں میں تھی۔ لیکن جب شامی عربوں کو کردوں کے علاقوں میں بسایا گیا تو حالات کے پیش نظر کرد نسل کے لوگ اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔
کروں کا مطالبہ تھا کہ انہیں محض ایک آزاد صوبے کی خود مختاری دی جائے، تاکہ وہ اپنے انتظامی معاملات کو آزادانہ طور پر طے کر سکیں، لیکن شامی حکومت نے اسے ماننے سے نہ صرف انکار کر دیا، بلکہ انہیں کچلنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی۔
آخر کار سنہ 2011 میں بشارالاسد کے خلاف ملک بھر میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انہیں اقتدار سے بے دخل کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا۔ اسی دوران کردوں نے سنہ 2011 میں 'وائی ایکس جی' نامی ایک تنظیم کا قیام کیا، جس میں مردوں اور خواتین دونوں طبقے نے شامی حکومت کے خلاف بغاوت میں حصہ لینا شروع کر دیا۔
بعد ازاں سنہ 2012 میں مردوں کی علیحدہ یونٹ کا قیام ہوا، اور تنظیم کا نام بدل کر 'وائی پی جی' رکھ دیا گیا۔ اسی طرح سنہ 2013 میں خواتین یونٹ کا بھی علیحدہ قیام کیا گیا، جسے 'وائی پی جے' کا نام دیا گیا۔
کرد یہاں جد و جہد کر ہی رہے تھے کہ اسی دوران 'آئی ایس آئی ایس' نامی شدت پسند تنظیم ابھر کر سامنے آ گئی، اور امریکہ نے سنہ 2014 میں آئی ایس سے مقابلے کے لیے تقریبا 2 ہزار کی خصوصی امریکی فوج شام میں اتارنے کے ساتھ ہی سنہ 2015 میں کردوں اور شامی عرب جنگجووں کی 50 ہزاراد افراد پر مشتمل ایک فورس کی تشکیل دی جسے 'سیرین ڈیموکریٹک فورسز' کا نام دیا گیا۔
آئی ایس کے خاتمے کے بعد کردوں کو اپنا مقصد بے حد قریب نظر آ رہا تھا، تبھی 9 اکتوبر سنہ 2019 میں ترکی نے شمالی شام میں کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر حملہ کر دیا۔ اور فی الحال کرد جنگجو ترکی فوج کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔
عراق میں کردوں کی کیا حالت ہے؟
عراق میں کردوں کی حالت دیگر ممالک کے مقابلے بہتر ہے، عراق کے شمالی علاقے کردستان ریجن میں سنہ 1990 کے بعد ان کی خود مختاری رہی ہے۔ کرد رہنما جلال طالبانی سنہ 2006 سے 2014 تک عراق کے صدر بھی رہ چکے ہیں۔
اس سے عراق میں کردوں کی حیثیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، لیکن عراق میں کردوں کو اتنی آسانی سے یہ سب کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔ انہیں بھی اس کے لیے بہت جد و جہد کرنی پڑی ہے۔
ابتدائی مراحل میں عراقی کردوں نے برطانوی حکومت سے تصادم کیا، لیکن برطانوی افواج نے انہیں کچل دیا۔ بعد ازاں مختلف بغاوتوں اور ٹکراو کے بعد، آخر کار سنہ 1946 میں مصطفے برزانی نے 'کردستان ڈیموکریٹک پارٹی' یعنی 'کے ڈی پی' کی بنیاد ڈالی اور کردوں کے لیے خود مختار ریاست کی کوششیں شروع کر دی۔
جب کردوں کی ایک آزاد ریاست کے قیام کو مسترد کر دیا گیا تو مصطفی برزانی کی پارٹی نے بھی 'پی کے کے' کی طرح ہتھیار اٹھا لیا۔
اسی طرح سنہ 1975 میں برزانی کی پارٹی سے علیحدہ ہو کر ایک دوسرے کرد رہنما جلال طالبانی نے ایک دوسری پارٹی 'پی یو کے' کا قیام کیا۔
سنہ 1966 میں عربو کی سیاسی جماعت 'بعث پارٹی' کے وجود کے بعد عربوں اور کردوں کے درمیان تصادم جاری رہا۔ سنہ 1980 سے 1988 تک صدام حسین نے ایران کے ساتھ جنگ کیا۔
اس دوران صدام حسین نے عراقی کردوں کو ایران کی حمایت کے الزام میں سزا دینے کا ارادہ کیا، اور 'اَنفال' نامی مہم کے ذریعہ تقریبا 1 لاکھ کردوں کو قتل کر دیا۔ یہ اب تک کا کسی نسلی گروہ کا سب سے بڑا قتل عام تھا۔
سنہ 1991 میں خلیجی جنگوں کے درمیان امریکہ نے عراقی کردوں کو اس شرط پر ہتھیار مہیا کرائے، کہ وہ عراقی حکومت کو ختم کرنے میں امریکہ کا ساتھ دیں گے۔
آخر کار سنہ 2003 میں امریکہ نے صدام حسین کی حکومت کا نہ صرف خاتمہ کیا، بلکہ انہیں گرفتار بھی کر لیا۔ اس کے بعد کردوں کو عراق میں طاقت کا زبردست احساس ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سنہ 2005 میں مصطفی برزانی اور جلال طالبانی نے ملکر ایک مشترکہ پارٹی بنائی جس کا نام 'کردستان ریجنل گورنمنٹ' رکھا گیا۔
اور آخر کار سنہ 2006 میں کردوں کے رہنما جلال طالبانی عراق کے آٹھویں صدر منتخب ہوئے، اور سنہ 2014 تک بطور صدر اپنے خدمات انجام دیتے رہے۔
سنہ 2014 میں جب 'آئی ایس آئی ایس' کا ہنگامہ سامنے آیا تو امریکہ نے دوبارہ کردوں کا سہارا لیا، انہیں ہتھیار اور ٹریننگ دی گئی۔ اس دوران کردوں کی ایک جماعت 'پیش مرگہ' یعنی موت سے نہ ڈرنے والی جماعت نے عراقی حکومت کے ساتھ ملکر ایک محاذ بنایا اور عراق سے آئی ایس کا خاتمہ کر دیا۔
اس سے کردوں کی طاقت میں مزید اضافہ ہوا، لیکن سنہ 2017 میں کرد رہنماوں نے ایک ریفرنڈم کرایا کہ کردوں کو عراق کے ساتھ رہنا چاہیے یا ایک آزاد ریاست کا قیام کرنا چاہیے۔
اس ریفرنڈم میں اکثریت نے عراق سے علیحدگی کے حق میں ووٹنگ کی، لیکن عراقی حکومت نے ان کے ریفرنڈم کو قبول کرنے سے انکار کرنے کے ساتھ ہی کردوں پر مختلف طرح کا دباو ڈالا، جس کے نتیجے میں انہیں علیحدہ کرد ریاست کا منصوبہ ترک کرنا پڑا۔
ان سب کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ عراق میں کردوں کی حالت سب سے بہتر ہے۔ لیکن شام اور ترکی میں انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے، اور مسلسل ہتھیار بند جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہیں ایران میں کرد نسل کے لوگ پرسکون حالت میں رہتے ہیں۔
فی الحال عراق، ترکی اور شام میں کرد اپنی الگ ریاست کردستان کے قیام کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی ایک مرکزی تنظیم نہ ہونے کے سبب اپنے اپنے طریقے سے ان کی جد و جہد جاری ہے۔
فی الحال رفتہ رفتہ کردوں کے تعلق سے بین الاقوامی سطح پر ہمدردی میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے، لیکن دیکھنے والی بات ہو گی کہ انہیں اپنے مقصد میں کب کامیابی ملتی ہے۔