گذشتہ دو برسوں میں اسرائیلی سفارت کاروں نے شمال مشرقی ریاست کا دورہ کیا تھا اور اب بہت جلد اسرائیل آسام کے دارالحکومت گوہاٹی میں اعزازی قونصل خانہ قائم کرےگا۔
منگل کی شام قومی دارالحکومت میں ایک تقریب کے دوران وزیر اعلی سونووال نے کہا کہ بہت جلد اسرائیل آسام میں ایک اعزازی قونصل خانہ قائم کرے گا ۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہم نے حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ہمیں بتایا کہ زرعی ٹیکنالوجی ، پانی کے انتظامی نظام اور سیاحتی شعبے میں اسرائیل کافی آگے ہے۔ لہذا آپ اسرائیل سے بات کریں اور وزیر اعظم کے اسی مشورے پر ہم نے عمل کیا ہے۔
گوہاٹی میں پہلے سے ہی بنگلہ دیش اور بھوٹان کے قونصل خانے موجود ہیں ، جن کے ساتھ آسام کی بین الاقوامی سرحد متصل ہے ، لیکن اسرائیل کے لئے سفارتی اسٹیبلشمنٹ کا قیام ایک اہم قدم ہے۔وہیں دوسری طرف اسرائیل کے قونصل خانہ ممبئی اور بنگلورو میں ہونے کے علاوہ نئی دہلی میں اپنا سفارت خانہ موجود ہے۔
اعزازی قونصل خانوں کا مقصد یہ ہے کہ وہ دونوں ممالک کے مابین معاشی، سائنسی اور ثقافتی تعلقات کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ ریاست اور اس کے شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرے، لیکن صورتحال کے مطابق اعزازی قونصل خانے کے فرائض کی گنجائش میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
جہاں تک بغاوت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کاروائی اور انٹیلیجنس گیدرنگ ٹیکنیک کے تعلق سے کہا جائے تو اسرائیل بھی دنیا کے ان اعلی ممالک کی فہرست میں شامل ہے جس کے پاس یہ صلاحیتیں موجود ہیں اور اگر شمال مشرقی ریاست کی بات کی جائے جس کی سرحد چین سمیت کئی پڑوسی ممالک کے ساتھ گھری ہوئی ہیں ایسے میں آسام میں اسرائیل کی دلچسپی خاصا اہمیت رکھتی ہے۔
حالانکہ افغانستان ، بنگلہ دیش اور پاکستان سے آنے والے غیر مسلم کو تیزی سے شہریت حاصل کرنے والی شہریت ترمیمی قانون پر جاری وسیع پیمانے پر احتجاج کی وجہ سے آسام فی الحال شش وپنج کی حالت میں ہے۔
سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام میں تقریبا ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد مسلم آباد ہیں جو اس کی مجموعی آبادی کا 34.22 فیصد ہے۔
واضح رہے کہ جموں و کشمیر کے بعد بھارت کی دیگر ریاستوں کے ساتھ آسام میں مسلمانوں کی آبادی سب سے زیادہ ہے۔
گوہاٹی میں قونصل خانہ قائم کرنے سے اسرائیل کو منی پور اور میزورم میں رہنے والے میزو، کوکی اور پیئٹی قبائل کے 10 ہزار مضبوط قبیلے کو قریب سے جاننے کا موقع ملےگا، جو دعوی کرتے ہیں کہ ان کا تعلق اسرائیل کے 10 نزول قبائل میں سے ایک ہے۔
اس قبائل میں سینہ بہ سینہ ایک کہانی چلی آرہی ہے کہ اس قبائل کی آباؤ اجداد کو بنئی میناشے یعنی میناشے کے بیٹے کے نام سے جانا جاتا تھا۔جنہیں تقریبا 27 ہزار سال قبل اسیر بادشاہ نے جلاوطن کیا تھا۔ ملک بدر ہوجانے کے بعد وسطی ایشیاء اور جنوب مشرقی ایشیاء میں گھومنے کے بعد آخر کار یہ منی پور اور میزورم کے علاقوں میں آباد ہوگئے۔ ان قبائل کے 5 ہزار سے زیادہ افراد پہلے ہی اسرائیل ہجرت کر چکے ہیں۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان بہت قریبی تعلقات ہیں، جن میں فوجی ، اسٹریٹجک اور انٹیلیجنس کے اشتراک شامل ہیں۔ بھارت اسرائیل کے فوجی سازوسامان کا سب سے بڑا خریدار ہے، جس میں ہتھیاروں کے نظام بھی شامل ہےجبکہ روس کے بعد اسرائیل اس طرح کے سازوسامان کو مہیا کرانے میں بھارت کا دوسرا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
آسام اس سفارتی تعلقات کو صرف چند ممالک تک محدود نہیں رکھنا چاہتا ہے۔
آسام کے وزیر اعلیٰ کا کہنا ہے کہ 'ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ آسیان میں شامل تمام ممالک گوہاٹی میں قونصل خانے قائم کریں اور ہم نے اس سلسلے میں وزارت خارجہ سے مدد کی درخواست کی ہے ، انہوں نے ہمیں تعاون دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ہم گوہاٹی کو 'گیٹ وے ٹو ساؤتھ ایسٹ ایشیا' بنانے کے خواہشمند ہیں۔