ETV Bharat / international

صوبائی دارالحکومتوں پر حملے کے بعد افغانستان میں طالبان اور فوج کے درمیان شدید لڑائی

author img

By

Published : Aug 2, 2021, 4:59 PM IST

طالبان نے بڑے دیہاتی رقبے اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضے کے بعد اب صوبائی دارالحکومتوں پر حملے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

attack on the provincial capitals
attack on the provincial capitals

افغان فورسز نے اتوار کے روز سڑکوں پر شدید لڑائی لڑی اور طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی جبکہ طالبان شدت پسندوں نے اپنے ملک گیر حملوں کو بڑھاتے ہوئے بڑے شہروں کی جانب پیش قدمی شروع کردی ہے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہرات میں سیکڑوں کمانڈر تعینات کردیے گئے جبکہ لشکر گاہ شہر میں حملوں کو روکنے کے لیے مزید فوجی دستوں کو طلب کرلیا گیا ہے اور افغان فوج کے فضائی حملوں میں درجنوں افراد سڑکوں پر ہلاک ہوئے۔

افغانستان میں مئی کے آغاز سے لڑائی میں اس وقت اضافہ ہوا جب غیر ملکی افواج نے انخلا شروع کیا جو اب تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔

طالبان نے بڑے دیہاتی رقبے اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضے کے بعد اب صوبائی دارالحکومتوں پر حملے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ طلوع آفتاب سے قبل رن وے پر 2 راکٹ داغے جانے کے بعد اتوار کے روز افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار سے پروازیں منسوخ کردی گئیں۔

طالبان نے مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے جنگی طیارے، مذکورہ ایئرپورٹ سے ان کے ٹھکانوں پر 'بمباری' کر رہے تھے۔ ایئرپورٹ کے چیف مسعود پشتون نے بتایا کہ رن وے کی مرمت کے بعد اتوار کی شام پروازیں بحال کردی گئی تھیں۔ راکٹ اس وقت گرے جب طالبان صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ سمیت دیگر 2 صوبائی دارالحکومتوں میں داخلے سے محض چند قدم دوری پر تھے۔

طالبان کے شہر پر قبضے کو روکنے، لاجسٹک اور فضائی معاونت برقرار رکھنے کے لیے یہ سہولت انتہائی اہم ہے جو جنوبی افغانستان کے بڑے علاقوں کے لیے فضائی احاطہ بھی فراہم کرتا ہے۔

ہلمند کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطا اللہ افغان نے کہا کہ 'شہر کے اندر لڑائی جاری ہے اور ہم نے اسپیشل فورسز کی تعیناتی کی درخواست کی ہے۔ افغان افواج عسکریت پسندوں کو شہروں سے دور رکھنے کے لیے زیادہ تر فضائی حملوں پر انحصار کر رہی ہیں حالانکہ اس سے گنجان آباد علاقوں میں شہریوں کے نشانہ بننے کا خطرہ ہے۔

2 لاکھ آبادی والے شہر لشکر گاہ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ 'شہر کے ہر حصے پر بمباری کی گئی ہے اور دونوں فریقین کے درمیان لڑائی گلیوں میں جاری ہے۔ دوسری جانب لشکر گارہ میں انسانی امدادی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتالوں میں درجنوں زخمی لائے گئے اور وہ اپنی گنجائش کے 90 فیصد تک بھر گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قندھارائیر پورٹ راکٹوں سے حملہ ، پروازیں معطل

علاوہ ازیں ہرات شہر کے مضافات میں لڑائی جاری ہے اور رات گئے طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے۔ہرات کے صوبائی گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد نے بتایا کہ حملوں میں 100 عسکریت پسند مارے گئے لیکن ان کے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق ہونا مشکل ہے۔

(یو این آئی)

افغان فورسز نے اتوار کے روز سڑکوں پر شدید لڑائی لڑی اور طالبان کے ٹھکانوں پر بمباری کی جبکہ طالبان شدت پسندوں نے اپنے ملک گیر حملوں کو بڑھاتے ہوئے بڑے شہروں کی جانب پیش قدمی شروع کردی ہے۔

ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہرات میں سیکڑوں کمانڈر تعینات کردیے گئے جبکہ لشکر گاہ شہر میں حملوں کو روکنے کے لیے مزید فوجی دستوں کو طلب کرلیا گیا ہے اور افغان فوج کے فضائی حملوں میں درجنوں افراد سڑکوں پر ہلاک ہوئے۔

افغانستان میں مئی کے آغاز سے لڑائی میں اس وقت اضافہ ہوا جب غیر ملکی افواج نے انخلا شروع کیا جو اب تقریباً مکمل ہوچکا ہے۔

طالبان نے بڑے دیہاتی رقبے اور اہم سرحدی گزرگاہوں پر قبضے کے بعد اب صوبائی دارالحکومتوں پر حملے کرنا شروع کر دیے ہیں۔ طلوع آفتاب سے قبل رن وے پر 2 راکٹ داغے جانے کے بعد اتوار کے روز افغانستان کے دوسرے بڑے شہر قندھار سے پروازیں منسوخ کردی گئیں۔

طالبان نے مذکورہ حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے جنگی طیارے، مذکورہ ایئرپورٹ سے ان کے ٹھکانوں پر 'بمباری' کر رہے تھے۔ ایئرپورٹ کے چیف مسعود پشتون نے بتایا کہ رن وے کی مرمت کے بعد اتوار کی شام پروازیں بحال کردی گئی تھیں۔ راکٹ اس وقت گرے جب طالبان صوبہ ہلمند کے شہر لشکر گاہ سمیت دیگر 2 صوبائی دارالحکومتوں میں داخلے سے محض چند قدم دوری پر تھے۔

طالبان کے شہر پر قبضے کو روکنے، لاجسٹک اور فضائی معاونت برقرار رکھنے کے لیے یہ سہولت انتہائی اہم ہے جو جنوبی افغانستان کے بڑے علاقوں کے لیے فضائی احاطہ بھی فراہم کرتا ہے۔

ہلمند کی صوبائی کونسل کے سربراہ عطا اللہ افغان نے کہا کہ 'شہر کے اندر لڑائی جاری ہے اور ہم نے اسپیشل فورسز کی تعیناتی کی درخواست کی ہے۔ افغان افواج عسکریت پسندوں کو شہروں سے دور رکھنے کے لیے زیادہ تر فضائی حملوں پر انحصار کر رہی ہیں حالانکہ اس سے گنجان آباد علاقوں میں شہریوں کے نشانہ بننے کا خطرہ ہے۔

2 لاکھ آبادی والے شہر لشکر گاہ کے ایک رہائشی نے بتایا کہ 'شہر کے ہر حصے پر بمباری کی گئی ہے اور دونوں فریقین کے درمیان لڑائی گلیوں میں جاری ہے۔ دوسری جانب لشکر گارہ میں انسانی امدادی تنظیموں کا کہنا تھا کہ ان کے ہسپتالوں میں درجنوں زخمی لائے گئے اور وہ اپنی گنجائش کے 90 فیصد تک بھر گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: قندھارائیر پورٹ راکٹوں سے حملہ ، پروازیں معطل

علاوہ ازیں ہرات شہر کے مضافات میں لڑائی جاری ہے اور رات گئے طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے گئے۔ہرات کے صوبائی گورنر کے ترجمان جیلانی فرہاد نے بتایا کہ حملوں میں 100 عسکریت پسند مارے گئے لیکن ان کے اس دعوے کی آزادانہ تصدیق ہونا مشکل ہے۔

(یو این آئی)

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.