ETV Bharat / international

بھارت۔چین مذاکرات: کیا کوئی حتمی نتیجہ نکل آئے گا؟

گزشتہ 16 برسوں سے بھارت اور چین کے مابین جو اعلیٰ سطحی بات چیت جاری ہے اس کا کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔ سرکردہ صحافی سریش بافنا کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تاہم تعلقات میں بہتری کے امکانات اب بھی برقرار ہیں۔

بھارت۔چین مذاکرات
بھارت۔چین مذاکرات
author img

By

Published : Dec 26, 2019, 4:45 PM IST

بھارت۔چین سرحدی تنازعہ پر بات چیت کے لیے مقرر خصوصی نمائندوں کے درمیان 22 واں اجلاس تاج محل کے شہر آگرہ میں ہونے جارہا ہے۔ یہ توقع کرنا غلط نہیں ہوگا کہ 21 دسمبر کو دونوں خصوصی نمائندوں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور چینی وزیر خارجہ اور ریاستی مشیر وانگ یی کے مابین ہونے والی بات چیت ، زمینی حقیقت کی بنیاد پر سرحدی تنازعہ کے حل کے لئے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

چین اور بھارت کے نمائندہ خصوصی کے مابین گذشتہ 21 مذاکرات میں ہونے والی گفتگو سے یہ واضح ہے کہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنا بہت ہی مشکل عمل ہے۔ سنہ 2003 میں اٹل بہاری واجپائی اور ہوجن تاؤ کے مابین منعقدہ سربراہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے خصوصی نمائندوں کی سطح پر بات چیت کی جائے گی۔ اس دور میں بات چیت کے دوران ہی یہ طے پایا تھا کہ تنازعہ کے حل کے لیے کس فریم ورک کے تحت کوشش کی جائے گی۔

سنہ 2005 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اور وین جیابائو کے مابین ہوئی ملاقات میں سیاسی پیرامیٹرز اور رہنما اصول طے کیے گئے تھے۔ جس کے تحت یہ قبول کیا گیا کہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے جغرافیائی خصوصیات اور آبادی کے درمیان تنازعات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔

اس دوران دونوں ممالک کے مابین ایک غیر رسمی معاہدہ یہ بھی ہوا تھا کہ باہمی معاہدے کے ذریعہ لائن آف ائکچیول کنٹرول (ایل اے سی) کا تعین کیا جائے گا، لیکن جلد ہی چین نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی۔ لائن آف ایکچول کنٹرول کے معاہدے پر عدم عمل آواری کی وجہ سے دونوں ممالک کی فوجوں کے مابین تصادم کے بہت سارے واقعات دیکھے گئے۔

سنہ 1962 میں ہوئی جنگ میں چین نے اکسائی چین کے 34 ہزار مربع کلومیٹر پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ چین پورے اروناچل پردیش کو چھوٹے تبت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ چین ان معاہدوں کو قبول نہیں کرتا ہے جن پر برطانوی حکومت کے دوران ان علاقوں کے مقامی حکمرانوں کے ساتھ اتفاق کیا گیا تھا۔ چین کی 14 ممالک کے ساتھ سرحدیں مشترک ہیں اور ان میں سے بیشتر کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات ہیں۔

چین نے ماضی میں سابقہ ​​کمیونسٹ سوویت یونین (یو ایس ایس آر۔ موجودہ روس) اور ویتنام کے ساتھ بھی جنگیں لڑی ہیں۔ اپنی معاشی اور فوجی طاقت کی بدولت چین نے بھارت اور بھوٹان کے سوا تقریبا ممالک کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو طے کرلیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے سرحدی معاہدے چین کے مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ایک بڑے علاقے کو چین نے ہتھیا لیا ہے۔ چین کی معیشت کا سائز بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہونے کے باوجود بھارت نے اپنے سرحدی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ جب بھارت نے ڈوکلم کے علاقے میں بھوٹان کے حق میں فوجی مداخلت کی تو چین نے بھارت کو جنگ کی دھمکی دی۔ چین کو اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ محض فوجی طاقت اور معاشی طاقت کا مظاہرہ کرکے سرحد کے سوال پر بھارت کی سرکوبی کرنا ممکن نہیں ہے۔

بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے معاملے کے باوجود جو بھارت اور پاکستان کے مابین طے پایا گیا ہے ، وہاں ہر روز سرحد پار سے فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف لائن آف ایکچیول کنٹرول کے باوجود چین کے ساتھ معاہدہ طے نہیں ہوا ہے ، گذشتہ 57 سالوں کے دوران سرحد پر ایک ہی بار فائرنگ کی گئی۔ یہ ثبوت یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ دونوں ممالک پر امن مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

اس سرحدی تنازعہ کا تجارت اور ان کے درمیان دوسرے تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا ہے۔ باہمی تجارت اب 80 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کا عمل طویل عرصے سے جاری ہے، جو اب بھی برقرار ہے۔

جموں وکشمیر کے معاملے میں چین نے جس انداز میں پاکستان کی حمایت کی ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بھارت پر مزید دباؤ بنائے رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ بھارت نے سفارتی سطح پر امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا جیسے دوسرے طاقتور ممالک کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات کو مستحکم کرکے چین کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

موجودہ صورتحال میں یہ توقع کرنا مناسب نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ حل ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے مابین کوئی بھی معاہدہ 'کچھ لیں ۔ کچھ دیں' کی بنیاد پر ہوگا۔ اس طرح کے اتفاق رائے کو دونوں ممالک کے مابین تشکیل دینا ہوگا کہ یہ معاہدہ عوامی سطح پر آسانی سے قابل قبول ہو۔

بھارت چاہتا ہے کہ چین فوری طور پر لائن آف ایکچول کنٹرول کو قبول کرے تاکہ دونوں ممالک کی افواج کے مابین تصادم کو روکا جاسکے۔ ڈوکلم جیسے واقعات نے دونوں ممالک کے عوام میں تناؤ بڑھا دیا ہے، جس کا مذاکرات کے عمل پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان رواں ہفتے آگرہ میں طے شدہ بات چیت سے کسی ٹھوس نتائج کی توقع کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں سے جموں و کشمیر کے معاملے پر پیدا ہونے والے تناؤ کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین بات چیت کا عمل تعطل کا شکار تھا۔ دونوں ممالک کو یہ احساس ہے کہ اس سب کے باوجود بھی مثبت پیش رفت ممکن ہے۔

گذشتہ کئی مہینوں سے امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کی وجہ سے چین کی معاشی شرح نمو میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بہت سی امریکی کمپنیوں کو چین سے تجارتی معاملات میں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ متعدد امریکی کمپنیوں نے چین میں اپنا کاروبار تقریبا ختم یا کم کردیا ہے۔

چینی کمپنیاں تجارت اور سرمایہ کاری کے معاملے میں بھارت کو ایک بہت بڑا بازار اور موقع سمجھتی ہیں۔ چین نے بھارت کے خلاف جاری تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارت اور چین کے مابین معاشی تعلقات کی مضبوطی کا سرحدی تنازعہ کے مذاکرات پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ اشیا و خدمات کی قیمتوں میں اتار چڑھاو کے اختلافات کو چین ۔ بھارت تنازعہ میں تبدیل نہیں ہونے دینا چاہئے۔ جب تک کہ لائن آف ایکچول کنٹرول کا تعین نہیں ہوجاتا۔

اس سب کے باوجود آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نامناسب حالات کے باوجود مواقع کا بروقت اور مناسب استعمال کرنا ضروری ہے۔ تا کہ بھارت اور چین کے درمیان تنازعات کم سے کم ہوں اور تصادم کی صورتحال کا حل نکل آئے۔

ان تنازعات کو روکنے کے لیے دونوں ممالک نے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جو اب تک کامیاب رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون بڑھانے سے ہی مسائل کا حل ممکن ہے۔ دونوں ممالک کو سرحدی تنازعہ کے حل کے سلسلے میں بے حد صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

بھارت۔چین سرحدی تنازعہ پر بات چیت کے لیے مقرر خصوصی نمائندوں کے درمیان 22 واں اجلاس تاج محل کے شہر آگرہ میں ہونے جارہا ہے۔ یہ توقع کرنا غلط نہیں ہوگا کہ 21 دسمبر کو دونوں خصوصی نمائندوں بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور چینی وزیر خارجہ اور ریاستی مشیر وانگ یی کے مابین ہونے والی بات چیت ، زمینی حقیقت کی بنیاد پر سرحدی تنازعہ کے حل کے لئے اقدامات کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

چین اور بھارت کے نمائندہ خصوصی کے مابین گذشتہ 21 مذاکرات میں ہونے والی گفتگو سے یہ واضح ہے کہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنا بہت ہی مشکل عمل ہے۔ سنہ 2003 میں اٹل بہاری واجپائی اور ہوجن تاؤ کے مابین منعقدہ سربراہی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ سرحدی تنازعہ کے حل کے لیے خصوصی نمائندوں کی سطح پر بات چیت کی جائے گی۔ اس دور میں بات چیت کے دوران ہی یہ طے پایا تھا کہ تنازعہ کے حل کے لیے کس فریم ورک کے تحت کوشش کی جائے گی۔

سنہ 2005 میں ڈاکٹر منموہن سنگھ اور وین جیابائو کے مابین ہوئی ملاقات میں سیاسی پیرامیٹرز اور رہنما اصول طے کیے گئے تھے۔ جس کے تحت یہ قبول کیا گیا کہ سرحدی تنازعہ کو حل کرنے کے لیے جغرافیائی خصوصیات اور آبادی کے درمیان تنازعات کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔

اس دوران دونوں ممالک کے مابین ایک غیر رسمی معاہدہ یہ بھی ہوا تھا کہ باہمی معاہدے کے ذریعہ لائن آف ائکچیول کنٹرول (ایل اے سی) کا تعین کیا جائے گا، لیکن جلد ہی چین نے اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کرلی۔ لائن آف ایکچول کنٹرول کے معاہدے پر عدم عمل آواری کی وجہ سے دونوں ممالک کی فوجوں کے مابین تصادم کے بہت سارے واقعات دیکھے گئے۔

سنہ 1962 میں ہوئی جنگ میں چین نے اکسائی چین کے 34 ہزار مربع کلومیٹر پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ چین پورے اروناچل پردیش کو چھوٹے تبت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ چین ان معاہدوں کو قبول نہیں کرتا ہے جن پر برطانوی حکومت کے دوران ان علاقوں کے مقامی حکمرانوں کے ساتھ اتفاق کیا گیا تھا۔ چین کی 14 ممالک کے ساتھ سرحدیں مشترک ہیں اور ان میں سے بیشتر کے ساتھ اس کے سرحدی تنازعات ہیں۔

چین نے ماضی میں سابقہ ​​کمیونسٹ سوویت یونین (یو ایس ایس آر۔ موجودہ روس) اور ویتنام کے ساتھ بھی جنگیں لڑی ہیں۔ اپنی معاشی اور فوجی طاقت کی بدولت چین نے بھارت اور بھوٹان کے سوا تقریبا ممالک کے ساتھ اپنے سرحدی تنازعات کو طے کرلیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سارے سرحدی معاہدے چین کے مفادات کو فائدہ پہنچانے کے لئے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے ایک بڑے علاقے کو چین نے ہتھیا لیا ہے۔ چین کی معیشت کا سائز بھارت سے پانچ گنا زیادہ ہونے کے باوجود بھارت نے اپنے سرحدی مفادات پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ جب بھارت نے ڈوکلم کے علاقے میں بھوٹان کے حق میں فوجی مداخلت کی تو چین نے بھارت کو جنگ کی دھمکی دی۔ چین کو اب یہ احساس ہوچکا ہے کہ محض فوجی طاقت اور معاشی طاقت کا مظاہرہ کرکے سرحد کے سوال پر بھارت کی سرکوبی کرنا ممکن نہیں ہے۔

بین الاقوامی سرحد اور لائن آف کنٹرول کے معاملے کے باوجود جو بھارت اور پاکستان کے مابین طے پایا گیا ہے ، وہاں ہر روز سرحد پار سے فائرنگ کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف لائن آف ایکچیول کنٹرول کے باوجود چین کے ساتھ معاہدہ طے نہیں ہوا ہے ، گذشتہ 57 سالوں کے دوران سرحد پر ایک ہی بار فائرنگ کی گئی۔ یہ ثبوت یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ دونوں ممالک پر امن مذاکرات کے ذریعے اپنے تنازعات کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

اس سرحدی تنازعہ کا تجارت اور ان کے درمیان دوسرے تعلقات پر کوئی منفی اثر نہیں پڑا ہے۔ باہمی تجارت اب 80 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ تنازعات کے حل کے لیے بات چیت کا عمل طویل عرصے سے جاری ہے، جو اب بھی برقرار ہے۔

جموں وکشمیر کے معاملے میں چین نے جس انداز میں پاکستان کی حمایت کی ہے، اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ بھارت پر مزید دباؤ بنائے رکھنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ بھارت نے سفارتی سطح پر امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا جیسے دوسرے طاقتور ممالک کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات کو مستحکم کرکے چین کی حکمت عملی کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔

موجودہ صورتحال میں یہ توقع کرنا مناسب نہیں ہے کہ مستقبل قریب میں بھارت اور چین کے مابین سرحدی تنازعہ حل ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ دونوں ممالک کے مابین کوئی بھی معاہدہ 'کچھ لیں ۔ کچھ دیں' کی بنیاد پر ہوگا۔ اس طرح کے اتفاق رائے کو دونوں ممالک کے مابین تشکیل دینا ہوگا کہ یہ معاہدہ عوامی سطح پر آسانی سے قابل قبول ہو۔

بھارت چاہتا ہے کہ چین فوری طور پر لائن آف ایکچول کنٹرول کو قبول کرے تاکہ دونوں ممالک کی افواج کے مابین تصادم کو روکا جاسکے۔ ڈوکلم جیسے واقعات نے دونوں ممالک کے عوام میں تناؤ بڑھا دیا ہے، جس کا مذاکرات کے عمل پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال اور چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے درمیان رواں ہفتے آگرہ میں طے شدہ بات چیت سے کسی ٹھوس نتائج کی توقع کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ پچھلے کچھ مہینوں سے جموں و کشمیر کے معاملے پر پیدا ہونے والے تناؤ کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین بات چیت کا عمل تعطل کا شکار تھا۔ دونوں ممالک کو یہ احساس ہے کہ اس سب کے باوجود بھی مثبت پیش رفت ممکن ہے۔

گذشتہ کئی مہینوں سے امریکہ کے ساتھ جاری تجارتی جنگ کی وجہ سے چین کی معاشی شرح نمو میں کمی واقع ہوئی ہے۔ بہت سی امریکی کمپنیوں کو چین سے تجارتی معاملات میں نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ متعدد امریکی کمپنیوں نے چین میں اپنا کاروبار تقریبا ختم یا کم کردیا ہے۔

چینی کمپنیاں تجارت اور سرمایہ کاری کے معاملے میں بھارت کو ایک بہت بڑا بازار اور موقع سمجھتی ہیں۔ چین نے بھارت کے خلاف جاری تجارتی عدم توازن کو دور کرنے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بھارت اور چین کے مابین معاشی تعلقات کی مضبوطی کا سرحدی تنازعہ کے مذاکرات پر بھی مثبت اثر پڑے گا۔ اشیا و خدمات کی قیمتوں میں اتار چڑھاو کے اختلافات کو چین ۔ بھارت تنازعہ میں تبدیل نہیں ہونے دینا چاہئے۔ جب تک کہ لائن آف ایکچول کنٹرول کا تعین نہیں ہوجاتا۔

اس سب کے باوجود آخر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ نامناسب حالات کے باوجود مواقع کا بروقت اور مناسب استعمال کرنا ضروری ہے۔ تا کہ بھارت اور چین کے درمیان تنازعات کم سے کم ہوں اور تصادم کی صورتحال کا حل نکل آئے۔

ان تنازعات کو روکنے کے لیے دونوں ممالک نے ایک ایسا نظام تیار کیا ہے جو اب تک کامیاب رہا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین باہمی تعاون بڑھانے سے ہی مسائل کا حل ممکن ہے۔ دونوں ممالک کو سرحدی تنازعہ کے حل کے سلسلے میں بے حد صبر کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.