ETV Bharat / international

ان تارکین وطن کے انسانی حقوق کی پامالی کب تک ہوگی؟

غریب ملک (بوسنیا) بے شمار تارکین وطن کے لئے ایک گزرگاہ ہے، جس میں لوگ 'بالکن روٹ' کے ذریعہ مغربی یورپی ممالک جا کر اپنے خوابوں کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ راستے ہی میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔

sdf
sfd
author img

By

Published : Oct 23, 2020, 5:16 PM IST

موسم خزاں کی سخت سردی کے دوران یوروپی ملک بوسنیا کے انتہائی شمال مغرب میں، سیکڑوں تارکین وطن ایک جنگل میں پھنس گئے ہیں اور وہ کروشیا جانے کی بار بار کوشش کرتے ہیں، لیکن اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔

غریب ملک (بوسنیا) بے شمار تارکین وطن کے لئے ایک گزرگاہ ہے، جس میں لوگ 'بالکن روٹ' کے ذریعہ مغربی یورپی ممالک جا کر اپنے خوابوں کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ راستے ہی میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ہر روز درجنوں افراد کروشیا میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور دونوں ممالک سے متصل پہاڑ پر چڑھ کر کروشیا چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو رہنمائی کے لیے جی پی ایس سسٹم کا سہارا لیتے ہیں، جو ایسے لوگوں کے ذریعہ بھیجا جاتا ہے، جو کامیابی کے ساتھ جا چکے ہیں۔

اس طرح غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والوں کا پولیس انتظار کرتی ہے اور انہیں دوبارہ بوسنیا واپس کر دیتی ہے، جہاں مایوسی کا شکار مقامی لوگوں کے دباو میں پناہ گاہوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

کروشیا کے چھوٹے قصبے ویلیکا کلادوسا کے نزدیک سرحد سے محض 3 کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل میں 23 سالہ محبوب الرحمن پھنسے ہوئے ہیں اور چوتھی بار سرحد عبور کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

گذشتہ برس فروری ماہ میں محبوب الرحمن نے بنگلہ دیش چھوڑ کر موسم سرما سے قبل ہی اٹلی پہنچنے کا عہد کیا تھا۔

وہ ایک ماہ سے 300 دیگر بنگلہ دیشیوں کے ساتھ ایک عارضی کیمپ میں رہائش پذیر ہیں، جو پلاسٹک کی ترپال کے نیچے سوتے ہیں۔ حالانکہ یہ ترپال طویل عرصے تک ٹھند سے ان کی حفاظت نہیں کر سکتا۔

درجہ حرارت جلد ہی صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے گر جائے گا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'سردی ہے، بارش ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس کھانا پانی نہیں ہے اور لوگ بیمار پڑ رہے ہیں'۔

محبوب الرحمن کا کہنا ہے کہ 'کروشین پولیس کی جانب سے مستقل واپس کیا جانا ہمارے لیے 'تشدد' ہے۔ پولیس کے ارکان ہمارا سبھ کچھ، جیکٹس، بیگ، کھانا، جوتے اور رقم لے لیتے ہیں'۔

افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور مراقش کے اکثر تارکین وطن کروشین پولیس پر مارپیٹ کا الزام عائد کیا ہے۔ وہیں کوروشیا نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت 'آئی او ایم' نے اندازہ لگایا ہے کہ بوسنیا میں 2500 تارکین وطن بے گھر ہیں۔ اس کے علاوہ جس طرح حکام نے کچھ پناہ گاہوں کو بند کر دیا ہے، اس سے ان اعداد و شمار میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

آئی او ایم کے بوسنیا کے نمائندے پیٹر وان ڈیر آورورٹ نے خبردار کیا ہے کہ 'ہم تیزی سے ایک انسانی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں'۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے بھاگ جانے والے 48 سالہ صحافی کافل کاشڑ نے ڈیڑھ برس میں 14 بار کروشیا جانے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ وہ فی الحال کسی نئی کوشش سے پہلے آرام کر رہے ہیں۔

کافل نے کہا کہ 'ہم یہاں نجات حاصل کرنے آئے تھے، لیکن ہمیں پیٹا جاتا ہے۔ وہ اگلی بار ہمیں مار ڈالیں گے۔ ہم تنگ آچکے ہیں'۔

موسم خزاں کی سخت سردی کے دوران یوروپی ملک بوسنیا کے انتہائی شمال مغرب میں، سیکڑوں تارکین وطن ایک جنگل میں پھنس گئے ہیں اور وہ کروشیا جانے کی بار بار کوشش کرتے ہیں، لیکن اکثر ناکام ہوجاتے ہیں۔

غریب ملک (بوسنیا) بے شمار تارکین وطن کے لئے ایک گزرگاہ ہے، جس میں لوگ 'بالکن روٹ' کے ذریعہ مغربی یورپی ممالک جا کر اپنے خوابوں کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں، لیکن بہت سے لوگ راستے ہی میں ہلاک ہو جاتے ہیں۔

ہر روز درجنوں افراد کروشیا میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور دونوں ممالک سے متصل پہاڑ پر چڑھ کر کروشیا چلے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو رہنمائی کے لیے جی پی ایس سسٹم کا سہارا لیتے ہیں، جو ایسے لوگوں کے ذریعہ بھیجا جاتا ہے، جو کامیابی کے ساتھ جا چکے ہیں۔

اس طرح غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے والوں کا پولیس انتظار کرتی ہے اور انہیں دوبارہ بوسنیا واپس کر دیتی ہے، جہاں مایوسی کا شکار مقامی لوگوں کے دباو میں پناہ گاہوں کو بند کر دیا گیا ہے۔

کروشیا کے چھوٹے قصبے ویلیکا کلادوسا کے نزدیک سرحد سے محض 3 کلومیٹر کے فاصلے پر جنگل میں 23 سالہ محبوب الرحمن پھنسے ہوئے ہیں اور چوتھی بار سرحد عبور کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

گذشتہ برس فروری ماہ میں محبوب الرحمن نے بنگلہ دیش چھوڑ کر موسم سرما سے قبل ہی اٹلی پہنچنے کا عہد کیا تھا۔

وہ ایک ماہ سے 300 دیگر بنگلہ دیشیوں کے ساتھ ایک عارضی کیمپ میں رہائش پذیر ہیں، جو پلاسٹک کی ترپال کے نیچے سوتے ہیں۔ حالانکہ یہ ترپال طویل عرصے تک ٹھند سے ان کی حفاظت نہیں کر سکتا۔

درجہ حرارت جلد ہی صفر ڈگری سینٹی گریڈ سے نیچے گر جائے گا۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ 'سردی ہے، بارش ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس کھانا پانی نہیں ہے اور لوگ بیمار پڑ رہے ہیں'۔

محبوب الرحمن کا کہنا ہے کہ 'کروشین پولیس کی جانب سے مستقل واپس کیا جانا ہمارے لیے 'تشدد' ہے۔ پولیس کے ارکان ہمارا سبھ کچھ، جیکٹس، بیگ، کھانا، جوتے اور رقم لے لیتے ہیں'۔

افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور مراقش کے اکثر تارکین وطن کروشین پولیس پر مارپیٹ کا الزام عائد کیا ہے۔ وہیں کوروشیا نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

بین الاقوامی تنظیم برائے ہجرت 'آئی او ایم' نے اندازہ لگایا ہے کہ بوسنیا میں 2500 تارکین وطن بے گھر ہیں۔ اس کے علاوہ جس طرح حکام نے کچھ پناہ گاہوں کو بند کر دیا ہے، اس سے ان اعداد و شمار میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

آئی او ایم کے بوسنیا کے نمائندے پیٹر وان ڈیر آورورٹ نے خبردار کیا ہے کہ 'ہم تیزی سے ایک انسانی بحران کی طرف بڑھ رہے ہیں'۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے بھاگ جانے والے 48 سالہ صحافی کافل کاشڑ نے ڈیڑھ برس میں 14 بار کروشیا جانے کی کوشش کی اور ناکام رہے۔ وہ فی الحال کسی نئی کوشش سے پہلے آرام کر رہے ہیں۔

کافل نے کہا کہ 'ہم یہاں نجات حاصل کرنے آئے تھے، لیکن ہمیں پیٹا جاتا ہے۔ وہ اگلی بار ہمیں مار ڈالیں گے۔ ہم تنگ آچکے ہیں'۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.