ETV Bharat / international

چین: ایغور مسلمانوں کی حالت زار پر ایک رپورٹ

حال ہی میں چین میں ایک ڈیٹا بیس لیک ہونے کی وجہ سے یہ سامنے آیا ہے کہ چین میں کس طرح سے اویغور مسلمانوں کو حراستی کیمپوں میں قید کرکے رکھا گیا ہے۔

china muslims
china muslims
author img

By

Published : Feb 18, 2020, 10:34 AM IST

Updated : Mar 1, 2020, 5:00 PM IST

بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے اس تعلق سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ادارے کے حاصل کردہ ڈیٹا بیس میں ایغور مسلمانوں کے بیرون ممالک میں رہنے والے رشتہ داروں کے ساتھ بات چیت کی گئی ہے۔ ملک قراقس کے رہنے والے ان 311 افراد سے بات چیت کی گئی ہے۔ ان کے رشتے دار جو کہ تقریباً 2،000 سے زیادہ ہیں اور یہ چین میں رہائش پزیر ہیں۔ ان کے رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے بارے میں معلومات لی گئی ہیں۔

ہر اندراج میں زیر حراست افراد کا نام، پتہ، قومی شناختی نمبر، نظربندی کی تاریخ اور مقام کے ساتھ ساتھ ان کے کنبہ، مذہبی اور محلے کا پس منظر، نظربندی کی وجہ اور ان کی رہائی یا نظر بندی کے بارے میں فیصلہ شامل ہے۔

اس ڈیٹا بیس سے یہ سامنے آیا ہے کہ کس طرح چینی انتظامیہ ایغور مسلمانوں کے بارے میں پوری تفصیلات جمع کرتی ہے، اور پھر انتظامیہ یہ طے کرتی ہے کہ کسے حراستی کیمپ میں ڈالا جائے اور کسے نہیں۔

چین میں ابھی تک جتنے بھی حراستی کیمپس بنائے گئے ہیں، ان میں لاکھوں کی تعداد میں اقلیتوں کو رکھا گیا ہے، ان سب میں ایغور مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ڈیٹا بیس سے پتہ چلتا ہے کہ چینی حکومت مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو حراستی کیمپ میں ڈال رہی ہے نہ کہ کسی سیاسی یا پھر کسی اور وجہ سے۔ چینی انتظامیہ کی طرف سے ان لوگوں کو حراستی کیمپس میں ڈالا جارہا ہے، جو مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں، داڑھی رکھتے ہوں۔ اور وہ مذہبی شعار اختیار کرتے ہوں۔

China
حراستی کیمپ

انتظامیہ کی طرف سے کئی بار پورے کنبے کو حراستی کیمپس میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جس سے پورا خاندان تباہ ہو جاتا ہے۔

وہیں چینی حکومت کی طرف سے اس ڈیٹا بیس کے منظر عام پر آنے کے بعد کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ڈیٹا بیس کے بارے میں جب چینی وزیر خارجہ کے ترجمان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ 'یہ سب بکواس ہے اور اس پر تبصرہ کرنا ہی بےکار ہے'۔

چینی حکومت کا ان حراستی کیمپس کے بارے میں کہنا ہے 'یہ سینٹرس خاص طور پر نوکریوں کے لیے لوگوں کو ٹریننگ دینے، اور مذہب کے بنیاد پر امتیاز برتنے کو ختم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیے
تندولکر 'لاریس اسپورٹنگ موومنٹ' اعزاز سے سرفراز
وجے مالیہ کی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت آج
پرشانت کشور کو ملے گی 'زیڈ' سکیورٹی؟
جموں و کشمیر حدبندی کمیشن کے لئے سشیل چندرا نامزد

اس ڈیٹا بیس کے لیک ہونے سے یہ سامنے آیا ہے کہ چین کس طرح اقلیتی برادریوں کو پیش آتا ہے اور کیسے ان کی پہچان کر کے انہیں حراستی کیمپس میں بند کیا جا رہا ہے۔

یہ ڈیٹا بیس ایغور اکسائل کمیونیٹی کے ذرائع سے سامنے آئے ہیں، اور اس میں مارچ 2019 تک کی تفصیلات موجود ہیں، اس ڈیٹابیس کو قراقس ملک سے حاصل کیا گیا ہے، جہاں 6 لاکھ 50 ہزار ایغور مسلمان رہتے ہیں۔

اس ڈیٹا بیس میں زیر حراست افراد اور ان کے اہل خانہ کو 'ٹرسٹ وردی' یا 'ناٹ ٹرسٹ وردی' کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور اس طرح ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ وہیں ان کے رویے کو 'آرڈینری' یا 'گڈ' کے زمرے میں رکھ کر انہیں حراستی کیمپس میں ڈالا گیا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے نے اس تعلق سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ ادارے کے حاصل کردہ ڈیٹا بیس میں ایغور مسلمانوں کے بیرون ممالک میں رہنے والے رشتہ داروں کے ساتھ بات چیت کی گئی ہے۔ ملک قراقس کے رہنے والے ان 311 افراد سے بات چیت کی گئی ہے۔ ان کے رشتے دار جو کہ تقریباً 2،000 سے زیادہ ہیں اور یہ چین میں رہائش پزیر ہیں۔ ان کے رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے بارے میں معلومات لی گئی ہیں۔

ہر اندراج میں زیر حراست افراد کا نام، پتہ، قومی شناختی نمبر، نظربندی کی تاریخ اور مقام کے ساتھ ساتھ ان کے کنبہ، مذہبی اور محلے کا پس منظر، نظربندی کی وجہ اور ان کی رہائی یا نظر بندی کے بارے میں فیصلہ شامل ہے۔

اس ڈیٹا بیس سے یہ سامنے آیا ہے کہ کس طرح چینی انتظامیہ ایغور مسلمانوں کے بارے میں پوری تفصیلات جمع کرتی ہے، اور پھر انتظامیہ یہ طے کرتی ہے کہ کسے حراستی کیمپ میں ڈالا جائے اور کسے نہیں۔

چین میں ابھی تک جتنے بھی حراستی کیمپس بنائے گئے ہیں، ان میں لاکھوں کی تعداد میں اقلیتوں کو رکھا گیا ہے، ان سب میں ایغور مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

ڈیٹا بیس سے پتہ چلتا ہے کہ چینی حکومت مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو حراستی کیمپ میں ڈال رہی ہے نہ کہ کسی سیاسی یا پھر کسی اور وجہ سے۔ چینی انتظامیہ کی طرف سے ان لوگوں کو حراستی کیمپس میں ڈالا جارہا ہے، جو مسجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں، داڑھی رکھتے ہوں۔ اور وہ مذہبی شعار اختیار کرتے ہوں۔

China
حراستی کیمپ

انتظامیہ کی طرف سے کئی بار پورے کنبے کو حراستی کیمپس میں منتقل کر دیا جاتا ہے، جس سے پورا خاندان تباہ ہو جاتا ہے۔

وہیں چینی حکومت کی طرف سے اس ڈیٹا بیس کے منظر عام پر آنے کے بعد کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔

ڈیٹا بیس کے بارے میں جب چینی وزیر خارجہ کے ترجمان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ 'یہ سب بکواس ہے اور اس پر تبصرہ کرنا ہی بےکار ہے'۔

چینی حکومت کا ان حراستی کیمپس کے بارے میں کہنا ہے 'یہ سینٹرس خاص طور پر نوکریوں کے لیے لوگوں کو ٹریننگ دینے، اور مذہب کے بنیاد پر امتیاز برتنے کو ختم کرنے کے لیے بنائے گئے ہیں'۔

یہ بھی پڑھیے
تندولکر 'لاریس اسپورٹنگ موومنٹ' اعزاز سے سرفراز
وجے مالیہ کی عرضی پر سپریم کورٹ میں سماعت آج
پرشانت کشور کو ملے گی 'زیڈ' سکیورٹی؟
جموں و کشمیر حدبندی کمیشن کے لئے سشیل چندرا نامزد

اس ڈیٹا بیس کے لیک ہونے سے یہ سامنے آیا ہے کہ چین کس طرح اقلیتی برادریوں کو پیش آتا ہے اور کیسے ان کی پہچان کر کے انہیں حراستی کیمپس میں بند کیا جا رہا ہے۔

یہ ڈیٹا بیس ایغور اکسائل کمیونیٹی کے ذرائع سے سامنے آئے ہیں، اور اس میں مارچ 2019 تک کی تفصیلات موجود ہیں، اس ڈیٹابیس کو قراقس ملک سے حاصل کیا گیا ہے، جہاں 6 لاکھ 50 ہزار ایغور مسلمان رہتے ہیں۔

اس ڈیٹا بیس میں زیر حراست افراد اور ان کے اہل خانہ کو 'ٹرسٹ وردی' یا 'ناٹ ٹرسٹ وردی' کے زمرے میں رکھا گیا ہے اور اس طرح ان کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ وہیں ان کے رویے کو 'آرڈینری' یا 'گڈ' کے زمرے میں رکھ کر انہیں حراستی کیمپس میں ڈالا گیا ہے۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 5:00 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.