جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن آسیان کا سربراہی اجلاس اسی ماہ کے اخیر میں 26 سے 28 اکتوبر تک برونائی کے دارالحکومت بندر سری بھگوان میں منعقد ہوگا۔
اس کی ایسوسی ایشن نے ہفتہ کے روز کے ایک بیان میں کہا کہ سربراہی اجلاس میں میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ سینئر جنرل من آنگ ہلنگ کے بجائے ملک سے ایک غیر سیاسی نمائندے کو مدعو کیا جائے گا۔
ایسوسی ایشن کے مطابق وہ اس فیصلے پر مجبور ہیں کیونکہ میانمار کی فوجی حکومت نے ملک میں پرامن ماحول کو برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرانے کے باوجود بھی ناکام رہی ہے۔ فوجی حکومت نے آسیان کو یہ یقین دہانی رواں برس یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد کرائی تھی۔
10 رکنی بلاک پر مشتمل آسیان پر شدید بین الاقوامی دباؤ ہے کہ ان ممالک کے رکن میانمار میں تشدد کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔
واضح رہے کہ اب تک فوجی حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں نے جمہوری حکومت کی بحالی کے لیے نکالے جانے والے جلوسوں اور جلسوں پر فائرنگ کر کے 1100 سے زائد افراد کو ہلاک بھی کر دیا ہے اور سینکڑوں افراد بشمول معزول سویلین رہنما آنگ سان سوچی کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
آسیان کے وزرائے خارجہ نے جمعہ کی شام ایک ہنگامی اجلاس منعقد کیا، جس میں میانمار کے بحران کو دیکھتے ہوئے میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ کو سربراہی اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ لیا گیا۔
برونائی کی طرف سے بیان میں کہا گیا کہ آسیان کے وزراء علاقائی سلامتی پر میانمار کے بحران کے اثرات اور "قواعد پر مبنی تنظیم کے طور پر آسیان کے اتحاد ، ساکھ اور مرکزیت" کے بارے میں فکر مند ہیں۔
برونائی نے ایک بیان میں کہا کہ میانمار نے دعویٰ کیا کہ آسیان کے میانمار کے لیے مقرر خصوصی ایلچی ایروان یوسف ایسے لوگوں سے نہیں مل سکتا جو قانونی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں جیسے سوچی اور معزول صدر ون مائنٹ یا ان اداروں کے ساتھ جنہیں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔
اس نے کہا کہ بلاک کے ایلچی کی تمام متعلقہ فریقوں تک رسائی ہونی چاہیے۔
سوچی اور دیگر اعلیٰ شہری رہنماؤں کو فوج کے قبضے میں لے لیا گیا۔ انہیں مختلف الزامات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، ان کے حامیوں اور آزاد تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فوجی کارروائی کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش ہے۔